
محبت کے پیکر حافظ حسین احمدبھی کوچ کرگئے!
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
حافظ حسین احمدبھی داغ مفارقت دے گئے۔ 19مارچ کو آپ دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ پاکستان کے واحد سیاستدان تھے جن کی کہیں بھی مخالفت نہیں تھی ۔وہ سیاست دان تو تھے ہی ساتھ اسلامی اسکالر بھی تھے جو دو بار 2002 سے 2007 اور 1988 سے 1990 تک پاکستان کی قومی اسمبلی کے ممبر رہے اور مارچ 1994 سے مارچ 1994 تک پاکستان کی سینیٹ کے رکن بھی رہے ۔حافظ حسین احمد 1951 میں کوئٹہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ نے بچپن میں ہی عربی، اسلامی ادب، قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرلی تھی اور حافظ قرآن میں روایتی درس نظامی اور سند کے حامل بھی تھے۔ حافظ حسین احمد نے1973 کے اوائل میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بلوچستان سے کیا اور پھرجلد ہی قومی سطح پراپنی الگ ہی پہچان بنا لی۔ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان نیشنل الائنس میں اہم عہدوں پر قیادت کی قومی اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی رہے۔ حافظ حسین احمد انتہائی نفیس، ملنسار،محبت کرنے والے زیرک سیاستدان اور وضع دار پارلیمانی رہنما تھے ۔حافظ صاحب نہ صرف جید عالمِ دین اور باوقار سیاستدان تھے بلکہ اپنی حق گوئی اور اصول پسندی کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان کی سادگی، بردباری اور علمی گہرائی ہمیشہ متاثر کن رہی اسمبلی کے اندر اور باہر انہوں نے عوامی پرچم بلند رکھا۔ ان کی چند یادگار،شاندار اور منفرد باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی خاص کر انکی حس مزاح انتہائی اعلی پائے کی تھی اور انکی باتوں پر اسمبلی میں بھی قہقہے لگ جاتے تھے۔ اسی حوالہ سے کسی دوست نے انکی چند یادیں شیئر کی ہیں جو اپنے پڑھنے والوں کی نذر کررہا ہوں۔
نواز شریف کی حکومت نے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج لگایا تو اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیا ۔سینیٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررہی تھیں ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے؟ ابھی سوال نامکمل تھا کہ وزیر خزانہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ”جی !انہیں سمجھائیں میرا نام درست لیں حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے آج اخبار میں "سرچارج” کا تذکرہ بہت پڑھا ممکن ہے ذہن وہی اٹک گیا ہو وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے ،سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے ” میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!!یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے)کہہ سکتی ہیں؟ ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی چند لمحوں کے لئے تو چپ رہیں۔ پھر بولیں” نہیں میں نہیں کہہ سکتی” حافظ حسین احمد نے جواباً کہا جب آپ انہیں "سرتاج” نہیں کہہ سکتیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟
اسی طرح ایک بار وسیم سجاد سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرہال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے چیئرمین صاحب نے پوچھا اقبال حیدر کہاں ہیں؟ حافظ حسین احمد نے کہا” پینے گئے ہیں” جس پر پورے ہال میں قہقہے گونجنے لگے تو اقبال حیدر فوراً ایوان میں داخل ہوئے اور کہنے لگے ۔جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایاہے’ اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو چکے تھے ۔حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے ۔جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر تھیں۔ا سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے ۔اب قائم مقام ا سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ہی کو کرنا تھی۔ مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے ۔ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ہوسٹل چلی آئیں۔ کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین بھی موجود تھے۔ ان سے کہنے لگیں کہ حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ہیں انہیں سمجھائیں اجلاس کو پر سکون رہنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کے درمیان معاہدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد "تنگ” نہیں کریں گے۔ اگلے دن اجلاس شروع ہوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دھرایا دیا ۔ایک مرتبہ پھر ایسا ہواجب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی ۔حافظ صاحب نے کہا میں رات والے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے ا سپیکر کی کرسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا شروع کردیا نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رہے گا۔ تمام ممبران "رات” والے معاہدے پر حیرت زدہ تھے ۔یہ معاہدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا ۔
ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے ا سپیکر تھے ۔اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے ،انہیں جواب دینا تھے ۔اعتزاز احسن نے آتے ہی اسپیکر سے کہا کہ آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟ اعتزازاحسن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مری جارہی ہیں۔ حافظ حسین احمدکس پر؟ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں ۔ہم واک آؤٹ کریں گے نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔حافظ حسین احمدنے فرمایا کون سے الفاظ قابل اعتراض ہیں میں نے بڑی لمبی تقریر کی ہے مجھے کیا پتہ کہ کون سے قابل اعتراض بن گئے ہیں۔ معراج خالدنے کہا وہ جو قابل اعتراض ہیں۔ حافظ حسین احمد مجھے کیسے پتہ چلے گا؟ اعتزاز احسن وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر؟ حافظ حسین احمد جناب اسپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ وہ کس پر مری جارہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر” اتنے میں شور بلندہوا اور پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے کہنے لگے نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ہے ،بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے جس ہرحافظ حسین احمد نے کہا کہ جناب ا سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ہے انہیں میری نیت کا کیسے پتہ چل گیا؟یہ پکوڑے بیچنے والے جس عظیم خاتون کے توسط سے ممبر بن کے آئے ہیں ،ان کی اپنی لیڈر کے بارے میں کیسی سوچ ہے؟ حافظ صاحب کی حس مزاح اور اندازخطابت بہت جاندار تھا ۔وہ بہت سنجیدہ ماحول کو اپنے ایک جملے سے کشت زعفران بنا دیتے تھے ۔عمر بھر مولانا فضل الرحمان کے ساتھی رہے اور گذشتہ روز سبھی ساتھیوں کو چھوڑ کر حافظ صاحب سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ! اللہ پاک انہیں غریق رحمت فرمائے۔