لیڈی ہائی جیکر
شیئر کریں
آواز/ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبرہی ایسی تھی جس نے پوری دنیا میں شورمچادیا کچھ لوگوںکو یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ،عیسائی اور یہودیوںپر دہشت طاری تھی۔ البتہ مسلمان انتہائی پرجوش دکھائی دے رہے تھے۔ قہوے خانے میں بیٹھے ایک بوڑھے فلسطینی نے نوجوان سماجی کارکن کو بڑے رقت آمیزلہجے میں کہا ،بیٹایہ حالات کا جبر ہے یا صیہونی مظالم کہ ایک خاتون نے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کے بجائے پستول پکڑ لیا جو لوگ موت کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر جان ہتھیلی پرلیے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہوں، اس کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔تم دیکھ لینا لیلیٰ خالد ضرور اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگی۔
لیکن۔۔ نوجوان نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ بوڑھے فلسطینی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا جب کسی سے جینے کا حق بھی چھین لیا جائے تو بیٹا ایسے ہی ہوتا ہے ، غورکرو بلی جیسے جانورکو کمرے میں بند کرکے واپسی کے راستے مسدودکردیے جائیں تو وہ خونخوار ہوجاتی ہے ہم تو پھرجیتے جاگتے انسان ہیں ۔ یہودی ہمارے گھروںپرقابض ہوجائیں، آئے روز فلسطینیوںپرحملے،بم دھماکے،ظلم و ستم کرتے پھریں اور ہماری کوئی داد فریادبھی نہ سنے تو جبرکی کوکھ سے حریت پسندہی جنم لیتے ہیں۔
یادرکھو! ظالموںکا مقابلہ نہ کرنا بزدلی بھی ہے اور اعلیٰ درجے کی منافقت بھی۔ نوجوان کا چہرہ تمتا اٹھا۔ اس نے اثبات میں سرہلادیا، وہ بولا اپنے وطن کی آزادی کے لیے میں بھی فلسطین کازکیلئے دن رات ایک کردوںگا۔ بوڑھے فلسطینی کے ہونٹوںپرمسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس نے کہا شاید تم نہیں جانتے لیلیٰ خالد دنیا کی پہلی خاتون ہائی جیکر ہیں جس نے جہاز اغوا کرنے کے لیے 6 بار پلاسٹک سرجری کروائی۔ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام ہائی جیکنگ ہے جس میں کسی طیارے کو اغوا کر کے اپنے مطالبات منوانا ہے۔ہائی جیکنگ جیسے پر خطر جرم میں اول تو کسی خاتون کا ملوث ہونا ہی حیرت کی بات ہے لیکن کسی نوجوان لڑکی کا جہاز ہائی جیک کرنا، پھر پلاسٹک سرجری سے اپنی شکل تبدیل کرانا، اور ایک بار پھر ہائی جیکنگ کرنا، یہ تو یقیناً ایسی حیران کن کہانی ہے جو فلمی لگتی ہے۔ لیکن دنیا میں یہ واحد مثال فلسطینی خاتون لیلیٰ خالد کی ہے جس نے ایک نہیں دو بار جہاز ہائی جیک کیاتھا ۔
لیلیٰ خالد انتہائی حساس طبیعت کی حامل تھی ۔بچپن میں ہی اس نے د یکھا غزہ پریہودیوں کے حملوں میں آئے روز اپنے ہم وطنوں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ دیکھ کر وہ بہت بے چین ہوجاتی ایک روز تو حدہوگئی نہ جانے کہاں سے یہودی طیارے نمودارہوئے ، انہوںنے آناً فاناً بمباری شروع کردی ۔جتنی دیر میں فلسطینی جوابی کارروائی کرتے اس کا پورا محلہ ملبے کا ڈھیربن چکا تھا۔ دھواں اگلتے مکان آگ اور خون میں ڈوب گئے جن سہیلیوںکے ساتھ وہ ڈھیروں باتیں کرتی رہتی ۔ گڈے گڑیوں کا کھیل کھیلتی تھی ،ان کی صورتیں نہ دیکھی جارہی تھیں، اسے وحشت ہونے لگی، اس نے فلسطین کی آزادی تحریک میں شمولیت اختیارکرنے کا فیصلہ کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک متحرک کارکن
بن کر سامنے آئی اور مظلوم فلسطین کی آزادی کی علامت بن گئی۔لیلیٰ خالد 9اپریل 1944ء کو پیدا ہوئی ۔ اس کا کنبہ فلسطینیوں کے انخلاء کے بعد 13 اپریل 1948 کو لبنان چلا گیا ۔اس نے 15 سال کی عمر میں ، اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، وہ پین عرب نیشنلسٹ موومنٹ میں شامل ہوگئی ، جس کی ابتداء 1940 کی دہائی کے آخر میں جارج حباش نے کی تھی ، جو اس وقت امریکی یونیورسٹی بیروت کے میڈیکل کی طالبہ تھی۔ اس تحریک کی فلسطینی شاخ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد فلسطین کی آزادی کے لئے پاپولر فرنٹ بن گئی۔اس نے انپے گروپ سے کہا یہودیوںکے خلاف چھوٹی موٹی کارروائیوںکی بجائے کوئی ایسا کام کیا جائے کہ دنیاپرصیہونی مظالم اجاگرہوسکیں ۔ اسی مقصدکے پیش نظر لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے 1968ء اور1971ء کے درمیانی عرصے میں 4 جہازاغوا کیے۔ تاریخ بتاتی تھی فلسطین لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد لیلیٰ خالد نے پہلاجہاز 29اگست 1969ء کو اغوا کیا۔ یہ بوئنگ 707جہاز تھا جو اٹلی سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب جا رہا تھا۔ انہیں اطلاع ملی تھی کہ اس جہازمیں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک رابن بھی سفرکررہے ہیں جب جہاز ایشیاء کی فضائی حدود میں داخل ہواتو ڈرامائی اندازمیں ایک نقاب پوش خاتون نے جہاز کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس نے پائلٹ کو حکم دیاکہ فلسطینی شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کا رخ دمشق کی طرف موڑ دے ۔ دراصل لیلیٰ خالد دمشق جانے سے پہلے اپنی جائے پیدائش، وطن مالوف حیفہ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ خاتون اور اْس کے ساتھی بموں سے مسلح تھے۔ پائلٹ نے بادل ِ نخواستہ حکم کی تعمیل کی۔ چنانچہ جہاز دمشق میں اتار لیا گیا ۔ ہائی جیکروںنے مسافروں کو یرغمال بناکرفلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا ۔جس سے پوری دنیا کی توجہ فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کی طرف مبذول ہوگئی ۔جب لوگوںکو معلوم ہوا کہ ہائی جیکر ایک خاتون ہیں تووہ بے حد حیران ہوئے،فلسطینی نعرے لگاتے ہوئے گھروںسے باہرآگئے ۔اس روز مظلوم فلسطینیوںکے حالات پہلی بار دنیا پر واضح ہوئے۔ شہرشہر ،ملک ملک فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے ۔مذاکرات کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ہائی جیکروں کی بحفاظت واپسی کی شرائط پر تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا۔ یہ فلسطینیوںکی پہلی فتح تھی دنیا بھر کے ٹیلی وژن چینلوں اور اخبارات میں لیلیٰ خالد کے انٹر ویو نشر اور شائع ہوئے۔ وہ عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن گئی۔ اْن کی تصویروں کو اتنی شہرت ملی جو اس سے پہلے کسی مسلمان خاتون کو نہیں ملی تھی۔مقبولیت کا یہ حال تھا کہ یورپ میں رہنے والی لڑکیوں نے اس کے اسٹائل کو بالوں سے لیکرا سکارف تک کاپی کرلیااور لیلیٰ خالد جو انگوٹھی پہنتی تھی اس میں کوئی نگینہ یا پتھرنہیں گولی جڑی ہوئی تھی اس کا یہ اندازبھی مقبول ہوگیا۔
کہا جاتاہے کہ 6 ستمبر ، 1970 کو ، نیکاراگوان کے امریکی ، خالد اور پیٹرک آرگیلو نے ایمسٹرڈیم سے نیو یارک شہر جانے والی ال ال فلائٹ 219 کو ہائی پاس کرنے کی کوشش کی ، ڈفسن کے فیلڈ ہائیے قبل ارگیلو کو ہلاک کردیا۔ اگرچہ اس وقت وہ دو دستی بم لے کر جارہی تھی ، لیلیٰ خالد کو پرواز کے دوران مسافروں کو دھمکانے نہ کرنے کی سخت ہدایات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم ، طاقت سے دوچار ہونے کے دوران ، اس نے دستی بموں میں سے ایک سے حفاظتی پن واپس لے لیا اور اسے اکانومی کلاس مسافروں کی طرف گلیارے سے پھینک دیا۔ معجزانہ طور پر یہ پھٹا نہیں اور اس طرح عام دباؤ اور ہوائی جہاز کے ممکنہ حادثے کا سبب بنے۔ ارگیلو نے دو مرتبہ پرواز کے عملے کے رکن ویدر کو گولی مار دی تھی ، اور پائلٹ اوری بار لیف نے خالد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے تل ابیب واپس جانے کے احکامات سے انکار کردیا تھا۔ پائلٹ نے طیارے کو لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیا ، جہاں دونوں اسکائیمارشلز طارق پر اسمگل کیے گئے ایک اور ایل ایل طیارے کو تل ابیب لے جانے والے ٹیک آف کے انتظار میں تھے ، ویدر کو فوری اسپتال منتقل کیا گیا اور لیلیٰ خالد کو ایلنگ پولیس اسٹیشن پہنچایا گیا۔ یکم اکتوبر کو ، برطانوی حکومت نے اسے بدلے میں رہا کردیا۔
پہلی بار ہائی جیکنگ کے بعد اس نے اپنا بہروپ بدلنے کے لئے اْوپر تلے چھ بار پلاسٹک سرجری کروائی اور اپنی صورت مکمل طور پر تبدیل کر لی۔ ایک سال بعد 6 ستمبر 1970ء کولیلیٰ خالد نے اپنے ایک ساتھی کی مددسے ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئے۔ ایک خونریز تصادم کے نتیجہ میںلیلیٰ خالد کے ساتھی کو گولی مار کر ہلاک جبکہ اسے گرفتار کرلیا گیا اور اس جہازکو برطانیہ کے ایک ایئرپرپورٹ پر اتار لیا گیا ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فلسطینی جانبازوں نے ایک اور طیارہ اغوا کرکے تمام مسافروں کو یرغمال بنالیا۔ ہائی جیکروں نے لیلیٰ خالد کی رہائی کا مطالبہ کردیا اور یوں مذاکرات کے بعدلیلیٰ خالد کو قید سے رہائی ملی۔لیلیٰ خالد نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ” My people shall live” میں اپنی کہانی لکھی ہے۔ یہ دل کو دہلادینے والی کہانی ہے۔ یہ کتاب 1973ء میں شائع ہوئی جبکہ لیلیٰ خالد کی زندگی پر 2005ء میں Hijacker Khaled Laila نامی فلم بھی بنائی گئی ، اور اسے ایمسٹرڈم کے فلمی میلے میں بڑی پزیرائی ملی۔اس کی شادی ڈاکٹر فیاض رشید ہلال سے ہوئی ۔وہ ہنگامہ خیز مصروفیات کے بعد اپنے دو بیٹوں بیدر اور بشار کے ساتھ عمان ، اردن میں ر ہائش پزیرہوگئی،دنیا میں جب بھی جانباز حریت پسندوںکا تذکرہ ہوگالیلیٰ خالد کی جرأت ، بہادری اور اپنے وطن سے محبت کے لازوال جذبے کو کوئی فراموش نہیں کرسکے گا۔مسلمانوںمیں یہ جذبہ پیداکرنے کے لیے مذہبی اسکالرز، علماء کرام، اساتذہ کرام اور صحافیوں کو اپنا کردار اداکرناہوگا۔
٭٭٭٭