ایک ’’پی ڈی ایم‘‘اور تین راستے
شیئر کریں
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ المعروف پی ڈی ایم اتحاد اتنا صحت مند،توانا اور مضبوط تو خیر سے کبھی بھی نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو سیاسی ،پالیمانی اور احتجاجی لڑائی میں پچھاڑ سکتا ۔مگر سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کے متفقہ اُمیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی حیران کن اور غیرمعمولی جیت کے بعد اتنی اُمید ، اور توقع بہر حال پی ڈی ایم سے ضرور استوار ہوگئی تھی کہ یہ اپوزیشن اتحاد ،تحریک انصاف کی حکومت کو بھلے ہی نہ گراسکے ، لیکن اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے ،نہ صرف چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے موقع پر حاصل ہونے والی اپنی عبرت ناک ہزیمت کا غم کچھ ہلکا کرسکتاہے بلکہ حکومت کی سیاسی پریشانیوں کو فزوں تر بھی کر سکتاہے۔شاید یہ وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی دانست میں 26 مارچ کی تاریخ کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے لیے مختص کرچکی تھی اور سینیٹ انتخابات کے’’سیاسی تماشہ ‘‘کے بعد سب ہی کو لانگ مارچ کے’’احتجاجی تماشے‘‘ کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔ مگر پھر اچانک سے پی ڈی ایم اتحادکے جاری سربراہی اجلاس سے خبر برآمد ہوتی ہے کہ بھانت بھانت کے سیاسی جلسے ، انتخابی میلے اور احتجاجی تماشے دکھانے والے پی ڈی ایم اتحاد کا سرِ راہ اپنا تماشا بن گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے شمار سیاسی اتحاد بنتے بھی رہے ہیں اور بوقت ضرورت ٹوٹتے بھی رہے ہیں ۔اس لیے سیاسی اتحادوں کا ٹوٹنا کبھی کوئی معنی نہیں رکھتا ،لیکن جس’’عامیانہ انداز ‘‘میں پی ڈی ایم اتحاد ریزہ ،ریزہ ہوا ہے ۔ ایسی سیاسی رسوائی شاید ہی تاریخ میں کبھی اپوزیشن جماعتوں کے نصیب میں کاتبِ تقدیر نے لکھی ہو۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کی اس ساری ٹوٹ پھوٹ میں حکومت کا ذرہ برابر بھی ’’انتظامی کردار‘‘ شامل نہیں ہے۔یعنی اس ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔
پی ڈی ایم اتحاد کا سیاسی چشم و چراغ بھی وہ موصوف، جس نے ابھی کچھ دن قبل ہی حکومت کی پارلیمانی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر پی ڈی ایم اتحاد کے تن مردہ میں سیاسی و احتجاجی توانائی کی ایک نئی روح پھونک کر ساری دنیا پر ثابت کردیا تھا کہ عمر کے اِس نازک ترین حصے میں بھی ’’ایک زرداری ، سب پہ بھاری ہے‘‘۔مگر کسی کو کیا خبر تھی کہ چند ہفتے بعد، یہ ہی زرداری اس قد ر بھاری بھرکم ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم ہی اس کے بوجھ تلے بے دردی سے کچلی جائے گی۔ دراصل آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم اتحاد کا مستقبل داؤ پر لگا کر پاکستان پیپلزپارٹی کا حال اور بلاول بھٹو زرداری کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ بنا لیا ہے اور سیاست تو نام ہی بے ہنگم ہجوم کی قربانی دے کر اپنی سیاست کو کمال مہارت سے صاف بچالینے کا ہے ۔اگر آصف علی زرداری نے دور اندیشی سے کام لے کر تھوڑی سی زیادہ سیاست فرما ہی لی ہے تو اُس میں برائی کیا ہے۔ ویسے بھی اگر وہ یہ نیک کام کرنے میں ذرا سی بھی چُوک یا تاخیر کردیتے تو یہ ہی بدنامِ زمانہ سیاسی ہاتھ نواز شریف یا فضل الرحمن میں سے کوئی ایک اُن کے ساتھ دکھا جاتا ۔کیونکہ ماضی تونواز،زرداری اور فضل الرحمن تینوں کا ہی ایسی سیاسی کاریگری سے برابر آلودہ ہے۔یوں سمجھ لیں کہ پی ڈی ایم کے ساتھ آج نہیں تو کل بھی ہونا ،یہ ہی سب تھا۔
ہمارے کچھ دوستوں کو خیال ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے ،نیز چند تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ پی ڈی ایم مرچکی ہے ،جبکہ بعض خوش عقیدہ ،اور اپوزیشن سے خاص تعلقِ خاطر رکھنے والے سیاسی ماہرین کو ہنوز اُمید ہے کہ ابھی پی ڈی ایم زندہ ہے ۔ ہم نے سب دوستوں ہی کی رائے کو باہم ملاکر پی ڈی ایم کی صحت ، زندگی اور موت سے متعلق ایک مشترکہ اور محتاط نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد ، زرداری کی بھاری بھرکم سیاست تلے دب کر بُری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کر دائمی طور پر سیاسی معذور ی کا شکار ضرور ہو چکا ہے ،لیکن بہر کیف زندہ ہے ۔ ایک ایسے قریب المرگ بدقسمت جان دار کی طرح جس کا ’’سیاسی توازن ‘‘ بھی مکمل طور پر اُلٹ چکا ہو۔یاد رہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کے رہنماؤں کا بگڑا ہو ایہ ہی سیاسی توازن آنے والے ایام میں غلط سیاسی فیصلوں کی شکل و صورت میں وزیراعظم پاکستا ن جناب عمران خان کی حکومت کو مزید سیاسی قوت اور طاقت فراہم کرنے کا باعث بھی بن سکتاہے۔بظاہر پی ڈی ایم اتحاد، عمران خان کی حکومت کو کمزور یا ختم کرنے کے لیے معرض ِ وجود میں آیا تھا لیکن شومئی قسمت کہ اَب اپوزیشن رہنماؤں کی حالیہ سیاسی حالتِ زار ہی تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ’’سیاسی آکسیجن ‘‘کا کام دے رہی ہے اور پی ڈی ایم اتحاد کی اپنی حالت ایک ایسے خطرنا ک اور زہریلے سانپ کی مانند بن چکی ہے ،جس کا تمام تر زہر نکال کر سپیرے نے اُسے اپنی پٹاری میں بند کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے بے ضرر سے اِس سانپ کے پاس اَب فقط تین ہی راستے باقی بچے ہیں۔ پہلا محفوظٖ راستہ تو یہ ہے کہ وہ سیاسی سپیرے، آصف علی زرداری کی سیاسی خواہشات کے عین مطابق ’’سیاسی تماشہ‘‘ پاکستانی عوام کو بدستور دکھاتا رہے۔اس طرح سیاست میں خوب رونق میلہ بھی لگا رہے گا اور پی ڈی ایم کا سانپ طویل عرصے تک زندہ بھی رہ سکے گا۔ دوسرا غیر محفوظ راستہ پی ڈی ایم کے سانپ کے پاس یہ ہے کہ وہ سپیرے سے نظر بچا کر اور موقع ملتے ہی پٹاری سے نکل کر فرار ہو جائے مگر اس سیاسی ایڈونچر میں پی ڈی ایم کا زخمی،کمزور اور ناتواں سانپ کسی بھی لمحے، حکومت کے لیے لقمہ تر بھی بن سکتا ہے۔جبکہ پی ڈی ایم کے سانپ کے پاس تیسرا اور آخری مفاہمتی راستہ یہ ہی بچتا ہے کہ وہ بھی سنپولیوں کی قدیم نسلی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اپنی کینچلی بدل کر حکومت ِ وقت سے صلح و صفائی پر مبنی کوئی بامعنی قسم کے’’خفیہ مذاکرات‘‘ کرلے ۔یہ مشکل اقدام نہ صرف، اُسے سپیرے کے سیاسی قید سے نجات دلوا سکتاہے بلکہ اس طرح سے اُسے اپنا سیاسی زہر بھی پھر سے واپس مل سکتا ہے۔بہرحال فیصلہ پی ڈی ایم نے ہی کرنا ہے کہ اُس نے سپیرے کے پٹاری میں رہنا ہے یا پھر ریاست پاکستان کی عمل داری میں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔