مساجد پر حملے اور نسلی برتری کا جنون
شیئر کریں
کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کے پیچھے ایک نسلی تفاخر کا غیر معمولی محرک ہے۔ نسلی تعصب نے جدید دور میں قومیت کا چولا پہن لیا ہے۔ قومی ریاستوں کا ظہور مغرب کی اسی کشمکش سے ہوا ہے جس میں سفید فاموں کے نسلی تعصب نے مغربی ممالک میں مقامی اقوام کو تقریباً نگل لیا۔ قومیت اصل میں نسلی تعصب کے بطن سے پھوٹی ہے اور یہ انتہائی قدیم جذبہ ہے۔ آج کا مغرب اپنے نظریۂ علم (Epistemology)کی تشکیل میں قدیم یونان کا رہینِ منت ہے۔ جہاں سقراط ، افلاطون اور ارسطو پیدا ہوئے۔ بعد ازاں مغرب کی عقلیت پرستی نے یونانی فکر کی روح کوبھی چاٹ لیا اور نئی نئی تعبیرات نے انسان کو خدا بنا دیا،مگریہ ہمارا یہاں موضوع نہیں۔ یہاں صرف یہ نکتہ واضح کرنا ہے کہ مغرب اپنے ابتدائے فکر میں ہی نسلی تعصب سے آلودہ تھا۔ طویل مباحث کے بجائے 384 سال قبل از مسیح میں پیدا ہونے والے ارسطو پر قناعت کرتے ہیں، جسے افلاطون ایسا استاد اور سکندر اعظم ایسا شاگرد میسر آیا۔ارسطو کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ اُس نے مختلف النوع موضوعات پر تقریباً بیس لاکھ الفاظ رقم کیے مگر اُس میں سے کم وبیش دولاکھ الفاظ محفوظ رہ سکے۔ اے کاش اُس کی مشہور کتاب ’’السیاستہ‘‘ (Politics)کے یہ الفاظ بھی محفوظ رہنے سے بچ جاتے۔
’’فطرت نے وحشی قوموں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کررہیں۔ ۔۔۔۔نوعِ انسانی کے
ایسے طبقات کو غلام بنانے کے لیے جنگ کی جائے جنہیں فطرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا۔‘‘
ارسطو کی آٹھ کتابوں پر مشتمل ’’السیاستہ‘‘ کے کتاب اول کے دوسرے ، چھٹے اور آٹھویں باب میں غلامی کے حوالے سے مباحث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ فلسفی انسانوں کی تقسیم کا کیسے قائل تھا اور حصولِ دولت کے لیے ان انسانوں کو غلام بنانے کی جنگ کو کتنا ناگزیر سمجھتا تھا جو اُس کی نظر میں فطرتاًہی غلام بنانے کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ ایسے انسان جنگ کے ذریعے غلام اس لیے نہیں بنائے جارہے تھے کہ اُن کے اخراجات اُن کے آقا اُٹھاتے بلکہ یہ اس لیے غلام بنائے جاتے کہ وہ اپنے آقاؤں کے لیے پیداواری سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ قبل از مسیح کا یہ ’’نظریہ‘‘ جدید عہد میں پوری برہنگی، درندگی اور حیوانگی کے ساتھ قومی ریاستوں اور نظریۂ قومیت میں ظہور پزیر ہوا ۔ مغرب کا تصورِ جنگ ارسطو کے اسی بہیمانہ نظریہ کی پیداوار ہے جسے عہدِ جدید کے بہت سے دیگر فلسفیوں مثلاًتھامس ہابس، جان لاک اور ایمانوئیل کانٹ نے بہیمت کے نئے نئے لباس پہنائے۔ارسطو کے الفاظ پھر تازہ کیجیے: فطرت نے وحشی قوموں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ غلام بن کررہیں‘‘۔یہاں یہ واضح رہے کہ یونانیوں کے نزدیک ’’وحشی‘‘ کا واحد مطلب غیر یونانی ہوتا تھا۔بعد کی تاریخوں میں یہیں سے استعماریت (کالونیئل ازم ) کے بیج پھوٹنے تھے۔ مختلف فلسفیوں کے ذکر سے تحریر کو بوجھل بنائے بغیر یہاں صرف کانٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ آج کے مغرب میں بیشتر تصورات اسی کے فکری چشمے سے پھوٹے ہیں۔
جرمن فلسفی کا نٹ (1724 تا1804)کا فلسفہ اپنے اصل نتائج میں انسان کو اپنا خدا آپ بناتا ہے۔یہ فلسفہ کسی بھی تشریح کے بغیر ہی انسان کو کسی مقصد کی مخلوق نہیں رہنے دیتا، بلکہ اِسے اپنا مقصود آپ بنا کر ’’الوہیت‘‘ کے درجے پر پہنچاتا ہے۔ ایسا انسان جو ’’خدا‘‘ ہے، وہ مکمل آزاد کیوں نہ ہوگا؟پھر ایسا آزاد اپنی آزادی کو ہر حالت میں بے کنار کیوں نہ مانے گا؟مگر ایسی بے قید آزادی کا دائم اور متناقض مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دوسروں کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔چنانچہ اِ ن’’ دوسروں ‘‘کا کیا کریں؟(واضح رہے کہ مغرب میں سفید فام نسل اپنے علاوہ سب کو یہی ’’دوسرے‘‘ سمجھتے ہیں)۔ کانٹ کا فلسفہ بشریات( philosophy of anthropology)ان دوسروں کا ’’علاج‘‘بتاتا ہے۔ وہ انسانوں کو مختلف چار اقسام میں تقسیم کرکے سفید فام کو سب سے اعلیٰ نسل قرار دیتا ہے۔ یہ سفید فام نسل ہندوؤں کے برہمن جیسی ہے۔ نسلی برتری کا یہی زعم ، جنون اور محرک مغرب کو جنگوں پر اُکساتا ہے اور بھارت کے برہمنوں کو اقلیتوں پر ننگی تلوار بنا کررکھتا ہے۔ کانٹ کا پیروکار فلسفی فشٹے (1762 تا 1814)جسے نظریاتی طور پر جرمن قومیت کا بانی کہا جاتا ہے، دراصل انسان کے اسی الٰہی تصور کے تحت انسانی ’’انا‘‘ کو آخری حقیقت مانتا ہے۔ جب انا کا یہ تصور مابعدالطبیعاتی حقیقتوں میں گھلتا ملتا ہے تو پھر کیا قیامتیں برپا کرتا ہے ، اس کا اندازا مغرب کی سفید فام نسل کی دوسری نسلوں کو تاراج کرنے کی گزشتہ دوتین صدیوں کی روش سے لگایا جاسکتا ہے۔ انسانی انا جرمن جاکر اہلِ جرمنی کو دنیا کی دیگر تمام اقوام سے اعلیٰ وبرتر باور کراتی رہی اور اُنہیں ہر مرتبہ دوسری اقوام کو تہہ وبالا کرنے کا جواز مہیا کرتی رہی۔ کانٹ کے مقلد فشٹے نے کہا کہ ’’باکردار ہونا اور جرمنی کا باشندہ ہونا بلا شبہ ایک ہی بات ہے‘‘۔ قوم پرستی کے اسی تصورِ باطل نے مغربی ممالک میں مختلف ادوار میں مختلف نعروں کو جنم دیا۔ کبھی برطانیا میں سورج غروب نہ ہوتا تھا۔تب برطانیا کا نعرہ یہ تھا:حکومت کرنا برطانیا کا حق ہے‘‘۔ جرمنی کے دروبام سے جو نعرہ گونجا وہ یہ تھا کہ’’جرمنی سب سے اوپر‘‘۔ اٹلی میں کہا گیا کہ ’’اٹلی ہی مذہب ہے‘‘۔ آج کا امریکا ان نعروں کی پیداوار ہے کہ’’ امریکا خدا کا اپنا ملک ہے‘‘۔تاریخ کی جڑوں میں پیوست یہ نعرے نہیں نظریئے ہیں۔
قومیت کا یہ تصور انتہائی بہیمانہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو کسی طور اور کہیں پر بھی نہیں۔ یہ مسئلہ تب زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ایک قومیت دوسری قومیت کے ساتھ تعامل پیدا کرتی ہے۔ ایک قومیت کے پیروکاروں میں دوسری قومیت کے پیروکاروں کے لیے کوئی اُصول مساوات قائم نہیں ہوسکتی۔ اس بنیاد پراُن میں زندگی کے کسی بھی شعبے میں فوائد سمیٹنے کے لیے کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ہوگی۔ ایسے تصور کے ساتھ’’ جہانی سوچ‘‘(گلوبل تھنکنگ ) دراصل ایک دھوکا ہی ہوتا ہے، مغرب یہ دینے میں کامیاب ہے۔ نسلی برتری کا تصور کسی بھی قومیت کے لیے کوئی جہانی تصور پیدا کرے گا تو وہ قیصریت کے مزاج کے ساتھ ہوگا ۔ یہ استعمار کی خوبو کے بغیر نہ ہوگا۔ چنانچہ اس تصور کے ساتھ مغرب کا دنیا کو’’ عالمی گاؤں‘‘( گلوبل ولیج ) کہنا یا اِسے بنا کردکھا دینا عالم تمام کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ۔ کیونکہ عالمی سطح پر خیروشر کا کوئی بھی تصور اُصولی نہیں بلکہ نسلی اور برتری سے آلودہ ہے۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی سمیت مغرب کی ترقی دراصل دیگر اقوام کو سیاسی ، انسانی اور عملی طور پر پست رکھنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔ اس ماحول کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے مغرب کی غالب اقوام امریکا کی سرپرستی میں ہر نوعی ظلم کرتی ہیں۔ اُن اقوام نے اپنے اپنے دائروں میں لاشوں کے انبار لگائے۔ انسانی خون کے سمندر پار کیے۔ نیوزی لینڈ میں آسٹریلوی نژاد سفید فام کا نمائندہ دہشت گردبریٹن ہیری سن ٹیرنٹ دراصل اسی تاریخ کی پیداوار ہے۔ یہ تاریخ کراہوں میں ہنستی ، خون سے کھیلتی اور آنسوؤں میں مچلتی تاریخ ہے۔ اس کا معمولی جائزہ آئندہ تحریروں میں لیں گے۔ یہاں صرف یہ نکتہ واضح کرنا ہے کہ نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کا واقعہ کوئی تنہا واقعہ نہیں بلکہ اس کا ایک نسب ہے اور یہ تاریخ کے بہاؤ میں بہتا ہوا سلسلہ ہے۔