میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بچ۔گانہ۔۔

بچ۔گانہ۔۔

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۲ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

دوستو، آج کے کالم سے قطعی یہ مت سمجھئے گا کہ ہم آپ کو ’’گانے‘‘ سے بچنے کی تاکید کررہے ہیں، یہ شعبہ ہمارا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں نصحیت اور وعظ کرنے والے ہیں، نہ کوئی مفتی ہیں کہ فتوے لگاسکیں، آج کا عنوان ’’بچوں‘‘ سے متعلق ہے، اگر آپ بازار جائیں اور آپ کو بچوں کے لئے کپڑے خریدنے ہیں تو آپ ایسی دکان پر ضرور رک جائیں گے جہاں لکھا ہو’’بچگانہ‘‘۔۔چنانچہ آج کی اوٹ پٹانگ باتیں بھی صرف بچوں سے متعلق ہی ہیں۔بڑے کوشش کرکے بچوں سے متعلق باتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور باآسانی ہضم بھی کرسکتے ہیں، انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔۔ تو چلیں پھر آج کے ٹاپک کی جانب چلتے ہیں۔۔
آج کل ایک سیاست دان کی بیماری کا سوشل میڈیا پر بڑا چرچا ہے، ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔جب ان کی پوری پارٹی اور کارکنان انہیں شیر کہتے ہیں تو پھر کیوں نہ ایک بار انہیں ’’ڈنگرڈاکٹر‘‘ کو بھی دکھادیا جائے؟؟؟ ویسے بھی حکومت ایک بار انہیں ’’گائنی وارڈ‘‘ شفٹ بھی کرکے دیکھ چکی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست کا مزاح اور مزاج کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، پل میں تولہ پل میں’’ بھولا‘‘ ہوتے ہیں، کبھی انتہائی دانش کی بات کہہ ڈالتے ہیں تو کبھی ایسی ’’ چول‘‘ مارتے ہیں کہ ان کے کان کے نیچے دو لگانے کو دل کرتا ہے۔۔ ایک دن ہم ان کے گھر چلے گئے، کراچی چونکہ اب گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے جابجا کچرا ہی نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے۔۔ہم نے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر جب مکھیوں کو بار بار اٹیک کرتے دیکھا تو پیارے دوست کوکہاکہ۔۔ یار! جب سے تمہارے گھر آیا ہوں یہ مکھیاں پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔وہ مسکراکربولے۔۔مکھیاں گندی چیزوں کو دیکھ کر ہی منڈلاتی ہیں۔۔ایک روز ہم سے سوال کیا کہ۔۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے چار پاؤں ہوتے ہیں مگر وہ چل نہیں سکتی؟ہم سوچ میں پڑگئے،کافی دیر تک سوچ کے گھوڑے بچار کے دشت میں دوڑاتے رہے لیکن نتیجہ زیرو رہا تو کہہ دیا کہ،ایسی کوئی چیز نہیں۔۔وہ بڑی معصومیت سے بولے۔۔میز۔۔ایک روز ہم سے کہنے لگے ڈاکٹر نے مجھے کرکٹ کھیلنے سے منع کردیا ہے، جس پر ہم نے برجستہ کہا۔۔ کیوں کیا ڈاکٹر نے تمہیں کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ لیا تھا؟؟
ہم نے نیا گھر لیا ہے بہت بڑا ہے۔۔ ایک ننھی بچی نے اپنی سہیلی کو بتایا۔ وہ اتنا بڑا ہے کہ ہم سب کے لیے الگ الگ کمرہ ہے۔۔ پھر تاسف سے کہنے لگی ۔لیکن امی کے لیے کوئی کمرہ نہیں بچا، انہیں اب بھی ابو کے کمرے میں ہی سونا پڑتا ہے۔بچے توغیرسیاسی اور بڑے معصوم ہوتے ہیں۔۔ایک بچے نے دوسرے سے پوچھا،یار کل جب تم سائیکل چلارہے تھے تو چاچاخیرو کی مرغی تیرے سائیکل کے نیچے آگئی تھی، اب وہ کیسی ہے؟ بچہ کہنے لگے، سائیکل کو تو کچھ نہیں ہوا۔۔پہلے نے اس کے سرپر چپت لگاتے ہوئے کہا،ابے میں مرغی کا حال پوچھ رہا ہوں، بچہ کہنے لگا۔۔اس کا حال تو ٹھیک ہے بس انڈے ’’چٹخے‘‘ ہوئے دے رہی ہے۔۔ایک بچہ سڑک پر بھیک مانگ رہا تھا۔ ایک عورت نے کہا، تمہیں شرم نہیں آتی؟ تمہاری عمر کے لڑکے تو اسکول جاتے ہیں۔لڑکے نے فوری جواب دیا۔۔وہاں بھی گیا تھا، مگر کسی نے ایک پیسا بھی نہیں دیا۔۔ایک بچہ اپنے دوست کا بتارہا تھا کہ ،میرے ابو بہت بزدل ہیں،اکثر میرا سہارا لیتے ہیں، دوسرے بچے نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟؟ پہلا بچہ کہنے لگا۔۔ جب بھی سڑک پار کرنے لگتے ہیں تو ڈر کے مارے میرا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔۔
استاد نے جب دو شاگردوں کو آپس میں سرٹکراتے دیکھا تو وجہ جاننے کیلئے سوال کردیا۔۔ارے! آپس میں سر کیوں ٹکرا رہے ہو؟۔ایک شاگرد جلدی سے کہنے لگا۔۔جناب! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ریاضی میں پاس ہونے کے لیے دماغ لڑانا ضروری ہے۔۔ایک روز استاد جی کلاس میں ایک ڈبہ لے کر آئے،لڑکوں نے پوچھا، استادجی ،اس ڈبے میں کیا ہے؟؟ استاد نے کہا۔۔جو درست بتائے گاکہ ڈبے میں کیا ہے اسے ڈبے سے دوپینسلیں ملیں گی، اور جو یہ بتائے گا کہ اس میں کتنی پینسلیں ہیں تو اسے پوری چھ کی چھ پینسلیں ملیں گی۔۔استاد نے ایک شاگردکے والد سے کہا، جناب ! آپ کا بیٹا کلاس میں بہت کمزور ہے۔ ۔ باپ نے غصے سے جواب دیا۔۔ اللہ کے فضل سے گھر میں دو بھینسیں ہیں۔ دودھ مکھن کی کوئی کمی نہیں۔ پھر بھی معلوم نہیں کیوں کمزور ہے۔۔باپ نے اپنے بیٹے سے پوچھا، کیسا رہا پیپر؟ سوال آسان آئے تھے کیا؟ بیٹے نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا، سوال تو سارے کے سارے آسان تھے مگر جواب بہت مشکل تھے۔۔ایک روتے ہوئے بچے سے( جو اسکول کے یونیفارم میں تھا اور بیگ بھی کمر پر لٹکا ہوا تھا ) راہگیر خاتون نے پوچھا، تمہارا اسکول کہاں ہے؟ بچے نے ہچکیوں میں جواب دیا، میرے گھر کے سامنے۔۔خاتون نے دوبارہ سوال کیا، تو تمہارا گھر کہاں ہے؟ بچے نے پھر ہچکیوں میں بتایا کہ میرے اسکول کے بالکل سامنے۔۔خاتون نے زچ آکر پھر پوچھ لیا، اچھا یہ دونوں کہاں ہیں؟ بچے نے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا،آمنے سامنے۔۔
ایک فرم کے باس کو اچانک چھٹی والے دن اپنے اکاؤنٹنٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ اس نے اکاؤنٹنٹ کو بلانے کے لیے اس کے گھر فون کیا تو اکاؤنٹنٹ کے 4 سالہ بچے کی معصوم دھیمی سی آواز آئی۔۔ہیلو۔۔باس نے پوچھا، بیٹا آپ کے ابوگھر پہ ہیں؟ بچے نے کہا، جی۔۔باس نے کہا، کیا میں ان سے بات کرسکتا ہوں؟ بچے نے جواب دیا، نہیں۔۔باس ایک لمحے کو چونکا، پھر سوچا ممکن ہے باپ واش روم میں ہو۔ کسی بڑے سے بات کرنے کے خیال سے باس نے پھر پوچھا ۔۔اچھا۔ بیٹا یہ بتاؤ کیا آپکی امی گھر پہ ہیں ؟۔۔بچے نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ باس نے پھر پوچھا،کیا ان سے بات ہوسکتی ہے؟ بچے نے پھر صاف انکار کردیا۔۔باس حیران ہوگیا ،ایک کوشش پھر کی، اچھا بیٹے کوئی اور بڑا آپ کے قریب میں ہے؟ ۔۔ بچے نے کہا۔۔جی ایک پولیس والا ہے۔۔ باس پریشان ہوگیا،پوچھا، پولیس والا آپ کے گھر میں کیا کررہا ہے؟ بچے نے جواب دیا۔۔وہ میرے امی ابو سے باتیں کررہا ہے۔۔اب تو باس کی پریشانی بڑھ گئی،اس کے دل سے دعا نکلی، خدا خیر کرے۔ اچانک اسے فون پر پولیس گاڑی کے سائرن کی آواز سنائی دی۔ اس نے گھبرا کے بچے سے پوچھا۔۔بیٹا یہ پولیس گاڑی کا سائرن کیوں گونج رہا ہے ؟۔۔بچے نے کہا۔۔اب کافی سارے پولیس والے آگئے ہیں۔۔ بچے کی آواز اب بھی سرگوشی جیسی تھی۔باس کی پریشانی انتہا کو پہنچ گئی۔ پوچھا۔۔لیکن بیٹا۔اتنے پولیس والے آپکے گھر میں کیا کر رہے ہیں؟بچے نے ہنستے ہوئے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ہی ہی ہی ہی۔۔یہ سارے مل کر مجھے ڈھونڈرہے ہیں۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں