پسند کی شادی ‘ دو صو بائی وزراءمیں جنگ ، حکومت اور پی پی قیادت پریشان
شیئر کریں
سابق وزیراعلیٰ علی محمد مہر کی ماموں زاد بہن جگنو مہر نے صوبائی وزیر جام مہتاب ڈاہر کے بھانجے تیمور ڈاہر سے پسند کی شادی کرلی
دونوں رشتے میں کزن ہیں، علاقے کے وڈیرے خون کے پیاسے بن گئے،آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ کا فریقین کو تحمل کا مشورہ
مہر خاندان نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے ڈاہر خاندان کے لیے زمین تنگ کر دی ، پولیس الرٹ ، قبائل میں خون ریزی کاخطرہ
الیاس احمد
کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے اور اسی محبت کے نام پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بہک جاتے ہیں۔گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کر لیتے ہیں مگر آنے والے وقت اور نتائج سے بے خبر ہوتے ہیں۔ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کا المیہ یہ رہا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہاں کاروکاری کا رواج تھا جس کے نتیجہ میں انگریز حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ اگر کسی نے اپنی عورت قتل کی تو اس مرد کے پورے گھر کو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعہ قتل کرا دیا جائے گا اور پھر جیکب آباد کے ایک بلوچ نوجوان نے اپنی بیوی قتل کی تو انگریز حکومت نے اس کے پورے خاندان کے 9 افراد کو قتل کر دیا، تب اس علاقہ میں عورتوں کا قتل عام ختم ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ظلم جاری رہا جس سے ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مرد اور عورتیں موت کے منہ میں چلے گئے ۔ ضلع سکھر میں آج سے 13 سال قبل شائستہ عالمانی اور بلخ شیر مہر نے پسند کی شادی کیا کی، علاقے میں جلتی پر تیل چھڑک دیا۔ 7 افراد بے گناہ قتل ہوگئے۔ اس وقت علی محمد مہر سندھ کے وزیراعلیٰ تھے اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ لڑکا اور لڑکی قبائلی سرداروں کے حوالے کیے جائیں تاکہ دونوں کو قتل کیا جاسکے اور یہ قصہ یوں تمام کر دیا جائے لیکن اس وقت کے ایس ایس پی صدر ثناءاللہ عباسی اور اسلام آباد کے ایک صحافی کی کوششوں سے یہ جوڑابچ گیا اور بعد میں دونوں یورپ چلے گئے جہاں وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہے، اب پھر ضلع سکھر اور ضلع گھوٹکی میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ علی محمد مہر کی ماموں زاد بہن جگنو مہر نے صوبائی وزیر جام مہتاب ڈاہر کے بھانجے تیمور ڈاہر سے پسند کی شادی کرلی ، بس پھر کیا تھا،ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ۔ ایک طرف سابق وزیراعلیٰ علی محمد مہر، ان کے بھائی علی گوہر مہر،راجا خان مہر اس لڑکی کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے سرگرم ہیں تو دوسری جانب صوبائی وزیر جام مہتاب ڈاہر اپنے بھانجے کو بچانے کے لیے دن رات کوششیں کرر ہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جگنو مہر کے والد علی بخش مہر نے بھی ڈاہر قبیلے میں شادی کی تھی، یوں جگنو مہر نے اپنے کزن کے ساتھ پسند کی شادی کی ہے جس پر علاقے کے وڈیرے ان کے خون کے پیاسے بن چکے ہیں اور وہ ملک کے مختلف علاقوں میں چھپتے پھر رہے ہیں۔ اس پورے قصے کا علم آصف علی زرداری اوروزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بھی ہوگیا ہے اور دونوں نے فریقین کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے مگر مہر خاندان نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے ڈاہر خاندان کے لیے زمین تنگ کر دی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ رینجرز کے دستوں نے اوباڑو شہر میں آصف علی شاہ نامی ایک نوجوان کو صرف اسی بنا پر گرفتار کیا ہے کہ آصف شاہ نے جگنو مہر اور تیمور ڈاہر کو بھگانے میں اپنی گاڑی فراہم کی تھی۔ اس وقت ضلع گھوٹکی اور ضلع سکھر میں ڈاہر قبیلہ کے سیکڑوں افراد اپنے گھر چھوڑ کر بے گھر ہوچکے ہیں ا ور وہ در در کی ٹھوکر یں کھا رہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ان کا کیا قصور ہے؟ دونوں رشتے میں کزن ہیں تو دونوں خاندانوں کے سربراہ آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کر یں۔
علی گوہر مہر اس وجہ سے بھی پریشان ہیں کہ ضلع گھوٹکی میں ان کے دو مخالفین نادر اکمل لغاری اور سردار خالد احمد خان لوندنے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اگر انہوں نے قبائلی جھگڑا کرنے کی کوشش کی تو پھر آئندہ ڈہر کی، اوباڑو والی قومی اسمبلی کی نشست ان کے ہاتھ سے چلی جائے گی۔ کیونکہ باقی سارے سیاسی مخالفین اب پی پی میں آچکے ہیں۔
پورے ضلع میں ایس ایس پی مسعود بنگش نے پولیس کو الرٹ کر دیا ہے اور مختلف علاقوں میں پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا گیا ہے اور اب بھی خطرہ ہے کہ مہر، ڈاہر قبائل میں خون ریزی نہ شروع ہو جائے۔ صورتحال جو بھی ہو لیکن شائستہ عالمانی اور بلخ شیر مہر والے قصہ کی یاد دوبارہ تازہ ہوگئی ہے اور دونوں اضلاع میں خوف کی صورتحال برقرار ہے کیونکہ جب قبائلی جھگڑے ہوتے ہیں تو نہ صرف خونریزی بڑھ جاتی ہے بلکہ کئی علاقوں میں نظام ِزندگی مفلوج ہوکر رہ جاتاہے،پھر حکومتی ادارے بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ اور جب تک دیگر قبائلی سردار درمیان آکر صلح کے لیے فریقین کو راضی نہ کرلیں اس وقت تک کئی علاقے اس جنگ کی زد میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دو کزن کی شادی نے دو قبائل کو ایک دوسرے کا دشمن بنالیا ہے اور حکومت سندھ بے بس نظر آ رہی ہے۔