اسلام ....اور ایفائے عہدو پیمان
شیئر کریں
اس وقت عالم انسانیت میں عموماً اور عالم اسلام میں خصوصاً کرپشن ، بد امنی ، خون ریزی ، ظلم و زیادتی اور دوسروں کی حق تلفی جیسے دگر گوںحالات کی جو ماحولیاتی آلودگی اور گھناو¿نی فضا قائم ہے، اس کی بنیادی وجہ اور اس کا اصلی سبب انسانیت کا اپنی ان فطری ، جبلتی ا ور سرشتی خصائل و عادات کو یکسرنظر انداز کردینا ہے جنہیں قدرت خداوندی نے ہماری فطرت میں ودیعت فرما رکھا ہے ۔ سچ بولنا اور جھوٹ سے نفرت کرنا ، عدل و انصاف قائم کرنا اور ظلم و تعدی سے گریز کرنا ۔عہد و میثاق کا ایفاءکرنا اور نقض عہد سے منقبض ہونا ، امانت داری سے کام لینا اوراس میں خیانت کرنے سے اپنے آپ کو بچانا ، لوگوں کے ساتھ اچھے اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا اور بد اخلاقی و بد تمیزی سے کنارہ کشی اختیار کرنا ¾ قدرت الٰہیہ کی طرف سے انسان میں ودیعت رکھے گئے وہ انمول اور بیش قیمت خصائل و شمائل ہیں کہ اگر ان کا سو فی صد دنیا میں استعمال ہونے لگ جائے تو یقین جانیے! تمام عالم انسانیت امن و امان ، عدل و انصاف اور مختلف قسم کی فتوحات و برکات کا گہوارہ بن جائے اور ان کی مشک بار فضاو¿ں سے کائنات کا ذرہ ذرہ معطر ہوجائے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں زمانہ جدت پسندی کی طرف آگے کو بڑھ رہا ہے ووں ووں وہ ان فطری اور سرشتی خصائل و شمائل سے تہی دامنی اور دوری کا شکار ہورہا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ جو حدیث شریف میں آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ نبی پاک نے ارشاد فرمایا : ”سب سے بہترین میرا زمانہ ہے ، پھر میرے بعد کا زمانہ ، پھر اس کے بعد کا زمانہ۔“
اس میں شک نہیں زمانہ¿ نبوت کو گزرے ہوئے آج سے کم و بیش ساڑھے چودہ سوسال کا ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے جس میں کئی طرح کے زمانے آئے ، صحابہ کرامؓ کا زمانہ آیا ، تابعین تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا زمانہ آیا ، اس کے بعد والے اولیاءاللہ کے مختلف زمانے آئے ، مگر جو برکات و انوارات حضور اقدس کے زمانہ میں تھے وہ صحابہؓ کے زمانے میں نہ رہے اور جو صحابہؓ کے زمانے میں تھے وہ تابعین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے میں نہ رہے، اسی طرح جو انوار و برکات ہمارے پرانے بزرگوں، اولیاءاللہ کے زمانے میں تھے وہ آج پندرہویں صدی کے اس گئے گزرے ہوئے دور میں ہمیں کہاں میسرآسکتے ہیں ؟
ذیل میںخیر القرون کے اسی بے مثال و باکمال عہد زریں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے، جس سے آج کل کے اس ترقی یافتہ دورِ جدید کی حقیقت آپ کی آنکھوں کے سامنے آشکارا ہوجائے گی:
یہ ۳۱ہجری ہے ، حضرت عمر فاروق ؓ مسندِ خلافت جلوہ افروز ہیں ، در بارِ خلافت عدل و انصاف میں سرگرم عمل ہے ، اکابر صحابہؓ موجود ہیں اور مختلف معاملات میں پیش رفت جاری ہے کہ دیکھا کہ ایکا ایکی دو نوجوان شخص ایک خوب رو نوجوان کو پکڑ کر لارہے ہیں اور دربارِ خلافت میں پیش کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں : ” اے امیر المو¿منین! اس ظالم سے ہمارا حق دلوائیے ، اس نے ہمارے بوڑھے والد کو قتل کردیا ہے ۔“ حضرت عمرؓ نے اس نوجوان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”ان دونوں کا یہ دعویٰ تیرے خلاف سچا ہے؟۔“اس نے عرض کیا: ” جی ہاں ! یہ دونوں اپنے دعوے میں سچے ہیں ، واقعی ان کا بوڑھا باپ میرے ہاتھ سے قتل ہوا ہے۔“حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ”تجھے معلوم ہے کہ اب بدلے میں تجھے بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے قصاص میں تجھے اپنی جان دینی پڑے گی؟ ۔“ نوجوان نے تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا اور پھر بولا: ”خلیفہ کا حکم اور شریعت کا فتویٰ ماننے میں مجھے کوئی عذر نہیں ، لیکن میری ایک حاجت ہے ۔“ حضرت عمر ؓ نے پوچھا : ” کیا حاجت ہے؟۔“ نوجوان نے عرض کیاکہ : ” میرا ایک نابالغ بھائی ہے ، میرے والد مرحوم نے کچھ سونا میرے حوالے کیا تھا کہ جب یہ بالغ ہوجائے تو میں اس کے سپرد کردوں،سونا میں نے زمین میں ایک جگہ دفنایا ہوا ہے جس کا علم سوائے میرے اور میرے اللہ کے اور کسی کو نہیں ، اگر وہ امانت میرے چھوٹے بھائی تک نہ پہنچ سکی توعند اللہ قیامت کے دن میں مجرم ہوں گا ، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ مجھے تین دن کی ضمانت پر چھوڑ دیا جائے ۔“ حضرت عمر ؓ نے اپنا سر جھکا یا اور اس مسئلہ پر غور و خوض کیا، اس کے بعد سر اٹھایا اورارشاد فرمایا: ”اچھا تیری ضمانت کون دیتا ہے کہ تین دن کے بعد تو تکمیل قصاص کے چلا آئے گا؟۔“ حضرت عمر ؓ کے اس ارشاد پر نوجوان نے اپنے اردگرد بیٹھے چاروں طرف کے لوگوں کے چہروں پر ایک نظر دوڑائی اور حضرت ابو ذرغفاریؓ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگاکہ : ” یہ میری ضمانت دیں گے۔“ حضرت عمر ؓ نے پوچھا :© ” ابوذر ! آپ اس نوجوان کی ضمانت دیتے ہو ؟۔“ انہوں نے عرض کیا : ” جی ہاں! میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ یہ نوجوان تین دن کے بعد حاضر ہوجائے گا۔“یہ ایسے جلیل القدر صحابی کی ضمانت تھی کہ حضرت عمرؓ بھی راضی ہوگئے اور ان دونوں مدعیوں نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کردیا اور وہ شخص چھوڑ دیا گیا۔
اب تیسرا دن تھا ‘ حضرت عمرؓ کا دربارِ خلافت اُسی ٹھاٹھ باٹھ اور شان وشوکت کے ساتھ سجا ہوا تھا ، تمام جلیل القدر صحابہؓ بھی موجود تھے ، وہ دونوں مدعی نوجوان بھی حاضر ہوگئے اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ بھی تشریف لے آئے اور وقت مقررہ پر اس مجرم نوجوان کا انتظار ہونے لگا ، مگر جوں جوں وقت گزرتا جاتاتوں توں اس مجرم نوجوان کا انتظار بڑھتا جاتا ۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت ابوذر غفاری ؓ کی نسبت تشویش پیدا ہوگئی ۔ ان دونوں نوجوانوں نے آگے بڑھتے ہوئے حضرت ابو ذرغفاری ؓ سے کہا : ” ہمارا مجرم کہاں ہے؟۔“ آپؓ نے کمالِ استقلال اور انتہائی ثابت قدمی سے جواب دیا : ” اگر تیسرے دن کا وقت مقررہ گزرگیا اور وہ نہ آیا تو اللہ کی قسم! میں اپنی ضمانت پوری کروں گا ۔“ یہ سن کر عدالت فاروقی بھی جوش میں آگئی ، حضرت عمر ؓسنبھل کر بیٹھنے لگے اور ارشاد فرمایا: ”اگر وہ نہ آیا تو ابوذر ؓکی نسبت وہی کار روائی کی جائے گی جو شریعت اسلامی کا تقاضا ہے۔“ یہ سنتے ہی صحابہؓ میں تشویش پیدا ہوگئی ۔ بعض آب دیدہ اور بعض کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوجاری ہوگئے ۔ لوگوں نے مدعیوں سے کہنا شروع کردیا کہ: ” تم خون بہا قبول کرلو!۔“مگرانہوں نے قطعی طور پر اس کا انکار کردیا اور کہا کہ : ” ہم خون کے بدلے خون ہی لینا چاہتے ہیں۔“ ابھی لوگ اسی پریشانی میں تھے ،دیکھا کہ اچانک وہ نوجوان مجرم نمودار ہوگیا ، حالت یہ تھی کہ وہ پسینے سے بری طرح شرابور تھا اور اُس کا سانس پھولا ہوا تھا ، حضرت عمر ؓ کے سامنے حاضر ہوا اور خندہ جبینی کے ساتھ سلام کیا اور عرض کیا کہ : ”میں اپنے بھائی کو ماموں کے سپرد کر آیا ہوںاور اُس کی امانت سے انہیں خبردار کرآیا ہوں ، لہٰذا اب اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مجھ پر جاری کردیا جائے۔“
حضرت ابوذر غفاری ؓنے عرض کیا: ” اے امیر المو¿منین! اللہ کی قسم! میں اس شخص کو جانتا تک نہ تھا کہ یہ کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے؟ نہ اس روز سے پہلے کبھی اس کی صورت دیکھی ہے، مگر جب اس نے سب کو چھوڑ کر مجھے اپنا ضامن بنایا تو مجھے انکار مروت کے خلاف معلوم ہوا اور اس کے چہرے نے مجھے یقین دلادیا کہ یہ شخص اپنے عہد میں سچا ہوگااس لیے میں نے اس کی ضمانت لے لی تھی۔“
اِس نوجوان شخص کے ا س طرح اچانک آپہنچنے سے حاضرین مجلس میں کچھ ایسا غیر معمولی جوش و خروش پیدا ہوگیا تھا کہ ان دونوں مدعی نوجوانوں نے خوشی میں آکرعرض کیا : ”اے امیر المو¿منین!ہم اس نوجوان سے اپنے باپ کا خون معاف کرتے ہیں۔“یہ سنتے ہی حاضرین مجلس سے ایک نعرہ مسرت بلند ہوا اور حضرت عمر فاروقؓ کا چہرہ بھی مسرت سے کھلنے لگا اور آپؓ نے ان مدعی نوجوانوں سے فرمایا: ”تمہارے باپ کا خون بہا میں بیت المال سے ادا کروں گا ۔“ مگر انہوں نے خون بہا لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ ہم نے اس شخص کے ” ایفائے عہد“ کے خاطر اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے اسے معاف کردیاہے اس لیے اب ہمیں کچھ بھی لینے کا حق حاصل نہیں رہا۔“
یہ ہیں اسلام کی وہ روشن اور فطری تعلیمات اور یہ ہیں زمانہ¿ خیر القرون کے وہ سچے اور کامل ایمان دار مسلمان کہ جن کی رفعت و عظمت اور حقانیت و صداقت پر بجا طور پر ہم فخر محسوس کرتے ہیں اور اُن کے ان روشن اور بلند کارناموں کی مثالیں دیتے ہیں۔