جسٹس صاحب کا سوال اور بلا تھیلے سے باہر
شیئر کریں
میری بات/روہیل اکبر
تاریخ کے بدترین دھاندلی زدہ اور متنازع عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات بھی ثابت ہوئے۔ ان انتخابات میں فی ووٹ اوسطا ً2 ہزار 522 روپے خرچ ہوئے جبکہ قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے انتخابی مہم پر 5سو ارب سے زائد خرچ کیے۔ عام انتخابات پر اخراجات کا مجموعی تخمینہ 52 ارب 65 کروڑ 91 لاکھ روپے ہے اور ان انتخابات میں 6 کروڑ 5 لاکھ 8 ہزار 212 پاکستانیوں نے حق رائے دہی استعمال کیا ۔قومی اسمبلی کے 5ہزار 254امیدواروں کو فی کس ایک کروڑ روپے خرچ کرنے کی اجازت تھی لیکن انتخابی انتظامات پر بھی امیدواروں نے اربوں روپے خرچ کرڈالے۔ اس الیکشن میں کاغذات نامزدگی کی مد میں 65کروڑ سے زائد رقم قومی خزانے میں بھی جمع ہوئی جبکہ459خواتین نے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کیلئے ایک کروڑ 37لاکھ سے زائد رقم قومی خزانے میں جمع کرائی۔ اس ساری صورتحال کے باوجود یہ ایسا الیکشن تھا کہ جس میں جیتنے والے بھی سڑکوں پر ہیں اور ہارنے والے بھی اپنی ہار سے بے پرواہ ہوکر دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور سب کی نگاہوں کا مرکز اسلام آباد ہے۔جہاں اس وقت دنیا بھر کا میڈیا موجود ہے۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے نو منتخب ایم این اے شیر افضل مروت کے گھر پر حملہ ہونا ہمارے نظام کے مفلوج ہونے کی بھی علامت ہے ۔ہماری عدالتیں ہی ہیں جو ملک کی سلامتی کو محفوظ بنا سکتی ہیں مجھے یقین ہے کہ کالا کوٹ پہن کر قائد اعظم نے پاکستان کا مقدمہ جیت لیا تھا تو اسکے وارث کالے کوٹ والے اب پاکستان کو ٹوٹنے بھی نہیںدینگے بلکہ ہر اس طاقت کا مقابلہ کرینگے جو ظلم و ستم کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے اس صورتحال پر کیا خوبصورت بات کی ہے کہ اداروں کو تباہ کیا جارہا ہے اور اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے وکیل کے ساتھ یہ ہورہا ہے تو بلوچستان میں کیا ہورہا ہوگا ؟یہ واقعی حقیقت ہے کہ جو کچھ اسلام آباد میںہوتا ہے یہ تو پنجاب ، بلوچستان اور سندھ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا حالانکہ ہماری بہادر پولیس قانون پر عمل کروانے کے لیے خود کسی قانون کو نہیں مانتی بلکہ ہر چیز کو پائوں تلے روند رہی ہے۔
اسلام آباد میں ظلم ،جبر اور زیادتی کا جو بازار گرم ہے اس سے کئی سو گنا بڑھ کر زیادتیاں ملک کے باقی حصوں میں ہورہی ہیں بلوچستان ، سندھ کو تو چھوڑیں پنجاب میں سابق کمشنر لیاقت علی چٹھہ کے اسٹاف اور انکی فیملیز کے ساتھ ہماری بہادر پولیس کیا کررہی ہے، اس پر بعد میں لکھتا ہوں پہلے ججز اور وکلا کو خراج تحسین پیش کرونگا جو اتنی مشکلات کے باوجود بھی ثابت قد م کھڑے ہوئے ہیں۔ قانون کی حکمرانی قائم رکھنے اور انصاف پر مبنی نظام کے قیام میں وکلاء کا اہم کردار ہے ۔وکلاء معاشرے کی طاقت ہیں۔ ریاستی نظام کی مضبوطی و استحکام کیلئے وکلاء کا پیشہ ورانہ کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وکلاء نے ہمیشہ ملکی استحکام ، ترقی و خوشحالی اورجمہوریت کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں عدلیہ کے اہم رکن وکلا ہی ہیں۔ معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی کی جتنی فراوانی ہو گی، معاشرہ اتنا ہی پر سکون اور پر امن ہو گا کسی بھی معاشرے میں وکیل کا کردار مثالی ہوتا ہے۔ وکیل اپنے مثالی کردار سے معاشرے میں باوقار مقام حاصل کرتا ہے۔ دنیا کے نظام کو بہتر اور صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے عدل و انصاف کا قیام نہایت ضروری ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے عدل و انصاف کو اپنا لے تو معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے اور اس حوالے سے وکلاء برادری پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی
ہے کیونکہ قانون کی بالادستی اور احترام ہی قوموں کو عروج تک لے جاسکتا ہے۔ قانون کی پاسداری ہر ایک پرفرض ہے خاص کر ہماری پولیس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ظلم و زیادتی اور تشدد کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں کہ ہم اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرکے اپنی عاقبت خراب کررہے ہیں۔ اب اوپر چھوڑی ہوئی ہوئی بات کو وہی سے شروع کرتے ہیں کہ ہماری پولیس نے ہی یہ سارے کا سارا ماحول خراب کیا ہوا ہے۔ رہی بات جسٹس صاحب کی تو ان کی بات کی تصدیق کے لیے سابق کمشنر پنڈی لیاقت چٹھہ کے اسٹاف کے ساتھ ہماری پولیس جو کررہی ہے ،اس کی ایک جھلک مسز اشفاق کی زبانی پڑھ لیں جنکا کہنا ہے کہ لیاقت علی چٹھہ کے ساتھ میرے خاوند کام کر رہے تھے حالانکہ ان کا وہ شعبہ ہی نہیں لیکن رات کو پولیس والوں نے میرے گھر پر ساڑھے 12 بجے دروازے دستک دی پوچھنے پر بولے کہ بی بی دروازہ کھولو ہماری بلی آپ کی چھت پہ آئی ہے لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا کیونکہ میں گھر میں بچوں اور ماں کے ساتھ اکیلی تھی بعد پھر وہ بولے کہ ہم پولیس والے ہیں پھر انہوں نے میرا دروازہ کاٹ کے توڑ ڈالا اور میرے کمرے میں گھس آگئے ہیں اور پورے گھر کی تلاشی لی میرے بیگ میں گھر کے خرچہ کے لیے 50 ہزار روپے پڑے ہوئے تھے وہ بھی نکال لیے اس کے بعداوپر والے کمرے میں ایک بیٹی اور بیٹا اپنی دادی کے ساتھ سوئے ہوئے تھے جنہیں پولیس والے گھسیٹ کر سیڑھیوں سے نیچے لے آئے اور پھر گن پوائنٹ پہ مجھے لے کر ساتھ ہی میرے بھائی کے گھرلے گئے جسے پولیس ساتھ لے گئی اور اب پولیس لاہور میں میرے بھائیوں کے گھر پر موجود ہے جہاں میرے دل کے مریض والدبھی موجود ہیں۔ پولیس ہمیں شدید ذہنی ٹارچر دے رہی ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا قصور کیا ہے اقبال جرم تو کمشنر صاحب نے کیا ہے لیکن تشدد ہم پر شروع ہوچکا ہے پولیس کی فوج بغیر کسی لیڈی پولیس اور وارنٹ کے ہمارے دروازے توڑ کر زبردستی ہمارے گھروں میں گھسی اور طوفان بدتمیزی شروع کردیا۔یہاں تک کہ انہوں نے میرا قران پاک پکڑ کے نیچے گرایا ہے بعد میں میرے بچوں نے اٹھا کے اوپر رکھاتین گھنٹے تک ہمیں پولیس ہمارے گھر میں رہی میرے بھائی کو پکڑ کر لے گئے۔ میری معذور والدہ کو ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ میں کس سے پوچھوں کہ ہمارا جرم کیا ہے اور اس سارے واقعہ کا میرے بچوں پر کیا اثر پڑے گا ۔میں سمجھتا ہوں کہ جسٹس صاحب کے بلوچستان کے حوالہ سے پوچھے گئے سوال کا جواب پنجاب سے ہی مل گیا ہے۔ رہی بات بلوچستان کی وہاں کے تو لوگ اپنے پیاروں کے دیدار کے لیے اسلام آباد میں بھی آکر بیٹھے رہے جہاں ڈنڈے کے زور سے انہیں بھگا دیا گیا ۔اب وکلاء ہی ہمت کریں تو ملک کا غریب آدمی سکون کی نیند سو سکے گا ورنہ تو یہاں بلی پکڑنے کے بہانہ بلا تھیلے سے باہر آجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔