سندھ میں تعلیمی ادارے عیاشی کی اوطاق گاہیں بن گئے
شیئر کریں
گھوسٹ اساتذہ کی مہربانیاں راتوں رات کراچی و اندرون سندھ تبادلے کرانے میں کامیاب،وزارت تعلیم سندھ پرائمری سکینڈری اسکول کی 40%درس گاہیں سالہ سال بچوں کی انرولمینٹ سے محروم تعلیمی ادارے عیاشی کی اوطاق گاہیں بن گئی،اعلیٰ افسران وزارت تعلیم سندھ سیکرٹیریٹ کا نچلے درجے سے لیکر اعلیٰ افسران تدریسی و غیر تدریسی اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں خفیہ میٹنگیں درس گاہوں کے اوقات کار کے بات طلب کی جاتی ہے جہاں تعلقہ آفیسر،ڈسٹرکٹ آفیسر اور ایجوکیشن افسران عیاشیاں کرتے ہیں جہاں کام وقیام اور دادِ عیش تمام سہولتیں فراہم کی جاتی ہے۔کراچی کا تعلقہ ایجوکیشن آفس گلشن اقبال گڈاپ،ملیر،گلشن حدید،کورنگی اور نارتھ کراچی میں خفیہ میٹنگیں کرنے کا انکشاف ہوا ہے یہ انکشاف حالیہ اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے بعد اعلیٰ احکام کو بھیجی گئی درخواستوں میں دیا گیا،ذرائع نے بتایا کراچی میں30%تعلیمی ادارے سالہ سال سے کسی انرولمینٹ کے بغیر بھوت بنگلے کے مناظر پیش کررہے ہیں جہاں سیکڑوں ٹیچر حکومت سندھ سے گھر بیٹھے تنخوائیں وصول کررہے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ من پسند تدریسی عملہ راتوں رات اپنے تبادلے کراچی سے اندرون سندھ اور اندرون سندھ سے کراچی کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان تبادلوں کے احکامات وزیراعلیٰ سندھ کے عام اعلیٰ افسران ذمہ داران بھاری رشوتوں اور من پسند خواہشوں کی تکمیل کے بعد عمل میں لاتے ہیں جہاں کراچی اور اندرون سندھ میں تبادلے کئے گئے ملازمین کو اسٹار کوڈ کا نام دیا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ کراچی سیکنڈری اور پرائمری ایجوکیشن میں ہزاروں تدریسی بغیر تدریسی عملہ کراچی اور اندرون سندھ تبادلوں کے بعد من پسند ڈیوٹیاں گھروں میں انجام دے رہے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ تعلیمی اداروں نے رات کے اوقات میں جہاں چپراسی اور چوکیدار تعینا ت نہیں وہاں تعلیمی اداروں کا رات میں کھلنا اور عیش و عشرت کے پروگرام کو پایا تکمیل تک پہنچانا حکومت سندھ کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ پرائمری اور سکینڈری کے تدریسی عملے کابائیومیٹرک کے برخلاف اپنی ڈیوٹیاں انجام دینا اور من پسند پوسٹنگ کرانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ پرسنل نمبر1036357کراچی میں بھرتی کی گئی چند ماہ کے بعد ہی ان کو وزیراعلیٰ سندھ کے ایک آفیسر کی ہدایت پرGBGS ککری اسکول سے تبادلہ کرکے میرپور میرص سندھ میں تبادلہ کیا گیا جہاں یہ2015تک بغیرڈیوٹی کے حکومت سندھ سے تنخوائیں وصول کرتے رہیں۔2015میں بائیومیٹرک کی گونج نے ان کو واپس کراچی تبادلہ کرنے پر مجبور کیا مگر گھوسٹ ٹیچروں میں شمار رہی۔کراچی تبادلے کے بعد محترم ٹیچرصاحب نے کراچی میں بھی ذمہ داریاں نہ انجام دینے کا فیصلہ کیا اور اسکول کے ہیڈ کے ساتھ گالم گلوچ اور بدتمیزی کے واقعات رہ نما کئے جس کے باعث اسکول کے ہیڈ نے معاملہ محکمہ تعلیم کے افسران اور صوبائی محتسب اعلیٰ کی عدالت میں پیش کیا جہاں محتسب اعلیٰ نے تمام شواہد کی روشنی میں ٹیچر کو ملزمہ قراردیا اور جرمانہ کیا تاہم یہ ٹیچر آج بھی DBایڈوانی میں گھوسٹ ٹیچروں میں شمار ہوتی ہے۔