اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ
شیئر کریں
بدترین تعصب اور بے پناہ لالچ نے ہمارا تماشا بنا دیا۔ مرعوب لوگوں کی دانائی بھی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کامیاب دورے کے بعد رخصت ہوئے مگر اس دورے کو ناکام دیکھنے کے خواہشمندوں کا ماتم ختم نہیں ہورہا۔ کیسے لوگ ہیں ہم؟ تعصبات نے جنہیں اندھا کردیا۔ گروہی نفسیات کے سامنے یہ پھلتا پھولتا ،چمکتا دمکتا ملک کم پڑنے لگا ۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے جرائم صرف یہ تو نہیں کہ انہوں نے باجماعت ، پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ملک لُوٹا۔ چارچار ہاتھوں سے دولت سمیٹی ۔وسائل سے مالامال ملک کو دردر کا بھکاری بنایا۔ اس دنیا میں ابھی پوری طرح آنکھ بھی کھولنے پر قدرت نہ رکھنے والے ہانپتے کانپتے بچوں کو مقروض بناکررکھ دیا۔ ان جماعتوں کا اس سے بھی بڑا جُرم قومی دانش کو آلودہ کرنا ہے۔ ملک کے عام لوگوں کے ذہنوں کو فکری کجروی میں مبتلا کرنا ہے۔ ملک کے اجتماعی فہم کو گروہی تعبیرات میں بدلنا بھی ہے۔ اس کے حقیقی اہداف کو بے سمتی سے دوچار کرنا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری کوئی قومی متاع ہی نہ ہو، قومی دانش ہی یرغمال ہو، قومی تناظر ہی زیر قبضہ ہو۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ڈفلی اور اپنااپنا راگ ہے۔سعودی ولی عہد کے دورے پر حکومت کے ساتھ حزب اختلاف کا رویہ وہی ہے جو کسی صاحب کمال پیر کے ساتھ اُس کی بیوی کا رہا تھا۔ جھکی بیوی اُنہیں مان کر ہی نہ دیتی تھی۔ ایک روز پیر صاحب نے جلال میں ہوا میں اڑنا شروع کیا۔ لوگوں نے چھت پر چڑھ کر کسی کو اڑتے دیکھا اور مرعوب ہونے لگے، بیوی نے بھی ہوا میں اڑتے پیر کو دیکھا اور پہچان نہ پائی۔ صاحب کمال ہوا میں اڑنے کے بعد زمین پر آرہے اور سیدھے گھر پہنچے ، بیوی نے انتہائی جوش سے کہا کہ بڑے پیر بنے پھرتے ہو، پیر تو وہ تھا جو ابھی ہوا میں اڑتے دیکھا ، ذرا پہلے آتے تو اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ لیتے۔ صاحب کمال پیر نے بیوی کو بتایا کہ وہ میں ہی تھا۔ بیوی جھٹ سے تیوری چڑھا کر بولی:تب ہی میں کہوں کہ یہ ٹیڑھا ٹیڑھا کون اڑ رہا ہے۔عمران خان کی حکومت کے متعلق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنماوؤں اور اُن کے دسترخوانی قلم قبیلے کا ماجرا مختلف نہیں۔ولی عہد کے دورے سے قبل پہلا راگ یہ چھیڑا گیا کہ اس دورے سے ملنے والا کچھ نہیں۔ اس دوران میں یہ اندازا ہوا کہ دورہ بڑے مالیاتی معاہدوں میں ڈھلنے والا ہے تو نوازشریف صاحب جیل میں اپنا غم بھول گئے اور کہاکہ جو کچھ مل رہا ہے سب ہمارے عہد میں طے ہوا تھا۔ جب ان بے بنیاد باتوں کی باسی کڑھی میں کوئی اُبال نہ آیا تو ان جماعتوں کے بھونپوؤں نے انتہائی مذموم راستا اختیار کرتے ہوئے اِس دورے کو فرقہ وارانہ منہج پر تولنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش یا سازش آج بھی جاری ہے ۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف ولی عہد کی گاڑی چلانے کا پروپیگنڈا بھی اسی مذموم ذہنیت کا عکاس ہے۔ یہ پورا مزاج دراصل آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے ،کے بمصداق ہے۔ قومی حکومتیں اسی طرح کارگزار ہوتی ہیں ، اس کے اہداف اہم ہوتے ہیں ، اس کی بناؤٹ اور نمائشی اقدامات معمولی اہمیت بھی نہیں رکھتے۔ دورے کے اثرات ونتائج پر بات کرنے کے بجائے اس طرح کی باتیں بہت پست ذہنیت کی آئینہ دار ہے۔عمران خان کی اس محبت آمیز پیش قدمی نے ولی عہد محمد بن سلمان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے کہ وہ اُنہیں سعودی عرب میں اپنا سفیر سمجھیں۔یہ کم اہم معاملہ نہیں کہ سعودی عرب میں قید پاکستانی واپس پلٹ رہے ہیں، ویزا فیس میں کمی اور حجاج کے لیے امیگریشن کی پاکستان میں ہی سہولت کوئی معمولی فیصلے نہیں۔ یہ سب کچھ سعودی عرب کے بیس ارب ڈالر کے معاہدوں کے ساتھ پاک سعودی تعلقات کی رونق کو بڑھاتے اقدامات ہیں۔ پاک سعودی تعلقات کی اس پیش قدمی کے تناظر میں ایک مکروہ کھیل اور بھی کھیلا گیا جو مسلم لیگ نون کے راتب خوروں کی جانب سے ایک خوف ناک حکمت عملی کے طور پر اختیار کی جارہی ہے ،یہ قبیلہ عمران خان کی مذمت اور فوج کی مدحت کو ایک تکنیک کے طور پر برت رہاہے۔نونی دسترخوانی جتھے کے تمام لکھنے اور بولنے والے اسی نہج پر دوائے دل بیچتے اوراپنی دُکان بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ قبیلہ حکومت کی کامیابیوں کو دراصل فوج کی حسنِ عطا سے تعبیر کرتا ہے مگر اُن ہی کارناموں پر جسے وہ فوج کے مرہون منت قرار دیتے ہیں،اُسی پر تنقید کرتے ہوئے وہ نام عمران خان کا لینے لگتے ہیں۔ دلائل کے سناٹے میں قلم کے یہ فراٹے الفاظ کی ہیر پھیر سے جاری ہیں۔ کالم نگاروں سے تجزیہ کاروں تک سب کے سب اسی اُسلوب کے کھونٹے سے بندھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر فوج اور حکومت یکساں صفحے پرہے تو پھر فوج کے لیے حمایت اور عمران خان کی مخالفت کی گنجائش ایک ہی قلم سے ایک ہی مسئلے پر ایک ہی دم میں کیسے ہو سکتی ہے ۔ دراصل ان کی مخالفت جتنی جھوٹی ہے اتنی ہی اُن کی حمایت بھی۔ مدتیں گزر گئیں یہ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ دستار صرف وجہ عزت نہیں ہوتی ،کردار پر بھی لوگوں کی نگاہ ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ولی عہد محمد بن سلمان کی گاڑی کیوں چلائی؟دراصل عمران خان کی ولی عہد سے گرمجوش تعلقات کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔مگر پھر بھی لوگوں کو یاد نہیں رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب سے تعلقات کی گہرائی میں پاک فوج کا اہم کردار ہے ۔ مگریہ کردار کب نہیں تھا؟ یہ کردار تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کسی سے قومی سطح کے تعلقات کی توجیہات میں ذاتی حوالے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ یہ کھیل بھی کسی اور نے نہیں شریف خاندان نے شروع کیا تھا۔ شریف خاندان ترکی، چین اور سعودی عرب سے لے کر بل کلنٹن کے دور کے امریکا تک پاکستان کے ریاستی تعلقات کو نوازشریف کے ذاتی تعلقات کی گرمجوشی کا نتیجہ قرار دیتے تھے، اور اس لطیفے پر کسی کو ہنسی بھی نہیں آتی تھی۔شریف خاندان نے ریاستی ذمہ داریوں کو ذاتی تعلقات اور مفادات کے طور پر استعمال کرکے بین الریاستی تعلقات میں اِسے ایک آڑ ، چال اور ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اپنے دسترخوانی قبیلے سے اسے بالکل برعکس طور پر یہ باور کرایا کہ نوازشریف کی وجہ سے ان ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ اس مضحکہ خیز دعوے کی سب سے منحوس پرچھائیں سعودی عرب سے تعلقات پر بھی پڑی ہوئی تھی۔ اکتوبر 1999ء کے عجیب وغریب حالات میں نوازشریف کی جیل سے سعودی عرب پراسرار روانگی نے اس دعوے کو تقویت دی۔ سعودی ولی عہد کے تازہ دورے نے شریف خاندان کی اس سبقت کا تاثر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔پھر اُن کی جانب سے بھاری سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے یہ الفاظ تو قیامت ڈھا گئے کہ وہ پاکستان میں کسی اچھی قیادت کا انتظار کررہے تھے۔ نوازشریف کی طرف سے اس مغالطے کو بھی اب رفع ہوجانا چاہئے کہ سعودی سرمایہ کاری کے موجودہ معاہدے پر اُن کے دورے میں کام ہوا تھا۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے بھارت میں آئل ریفائنری کا منصوبہ نوازشریف کے دور سے ہی زیر غور تھا۔ جس پر تب کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر نوازشریف میں ایسی کیا جوہری تبدیلی پیدا ہوئی کہ اُنہوں نے بھارت کے حوالے سے مسلم دنیا میں پیدا ہونے والی لپک کا بُرا ماننا ہی چھوڑدیا تھا۔ نوازشریف کے عدالتی فیصلے پر وزیراعظم کے منصب سے فراغت کے بعد شاہد خاقان عباسی نے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ جس میں بھارت کے کم وبیش چالیس ارب کے منصوبے کے مقابل صرف تین چار ارب کی ایک آئل ریفائنری کا منصوبہ پاکستان کے لیے بھی مانگا گیا۔ یہ اجلاس تقریبا 52سیکنڈز میں’’ انشاء اللہ انشاء اللہ ‘‘کے ساتھ ختم ہوگیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا میں اپنی بیلٹ اتروانے پر بُرانہ ماننے والے تب کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سعودی عرب کے اس سلوک کا بھی بُرا نہ منایا ۔ اس سلوک کو تب بھی فوجی سربراہ نے ہی محسوس کیا۔ بعدازاں اس پر کام ہوا۔ ظاہر ہے کام بھی وہی کرے گا جو برادرانہ تعلقات میں اس سرد مہری کو محسوس کرے گا۔ چنانچہ اس کی پہل قدمی فوج کے حصے میں ہی آنی تھی جو آئی ۔ مگر اس میں ایک اہم پہلو عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد دوسری بار دورۂ سعودی عرب سے متعلق بھی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کی سرمایہ کاری کانفرنس میں بہت سے ممالک نے شرکت سے انکار کیا تب پاکستان نے اس میں شرکت کی۔ وزیرا عظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس کے دن خود ولی عہد عمران خان کے پا س آئے اور اُنہیں تمام پروٹوکول بالائے طاق رکھ کر اپنی گاڑی میں بٹھا کرکانفرنس میں شرکت کے لیے لے کر گئے۔ اس تعلق کو عمران خان نے ولی عہد کے استقبال میں گاڑ ی خود چلاکر نبھایا۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ سفر تقریباًآدھے گھنٹے سے کچھ زائد منٹوں پر محیط تھا جس میں عمران خان اور محمد بن سلمان نے آپس میں کھل کربات کی ۔ پاکستان کے لیے سرمایہ کاری میں فیاضی کارنگ اس سفر میں پیدا ہوا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں گروہی سوچ نے اس پورے معاملے کو بدترین طور پر آلودہ کیا۔ شریفوں کے مرہون منت طبقے کو دھچکا یہ پہنچا ہے کہ وہ اب سعودی شہزادوں سے اپنے تعلقات کی پرانی نہج کا ڈھنڈورا بھی پیٹنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ سعودی ولی عہد کے دورے کا یہ فائدہ بالکل نقد پہنچا ہے جبکہ بیس ارب ڈالر کے معاہدے ابھی اُدھار ہیں۔ اب آخر میں مشاہداللہ خان کے اس بیان سے بھی لطف اندوز ہو لیں کہ ہماری راجہ ظفرالحق کے ساتھ ولی عہد سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ نوازشریف میرے دل کے بہت قریب ہیں۔