ایک عشائیہ اور چند باتیں
شیئر کریں
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات براد رم امیر العظیم س غا لباً دو سال قبل کوئٹہ میں بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ جماعت کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات عبدالولی خان کے توسط سے یہ ملاقات ہوئی۔ یوں ان سے تعارف و تعلق قائم ہوا۔ چنانچہ عبدالولی خان نے ان کی کوئٹہ آمد کی اطلاعات دی۔ سوچا کیوں نہ تفصیلی نشست ہو اس طرح ہم دس فروری کو عشائیہ پر اکٹھے ہو گئے۔ کوئٹہ کے سینئر صحافی دو ست شہزادہ ذوالفقار احمدزئی ،رضا الرحمان، عبدالخالق رند عیسیٰ ترین، خلیل احمد ،عرفان سعید، سلمان اشرف ،ڈی جی تعلقات عامہ بلوچستان شہزادہ فرحت جان اور برادرم زاہد اختر میری درخواست پر شریک محفل ہوئے۔ امیر العظیم باخبر سیاستدان ہیں ، اسلامی جمعیت طلباء کے ناظم اعلیٰ رہے ہیں۔ قید و بند کا سامنا کرچکے ہیں ۔لمبے عرصے سے جماعت میں اطلاعات کی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ان سے تفصیلی اور کھل کر بات چیت ہوئی، دوستوں نے جماعت کی افغان، کشمیر اور ملکی سیاسی پالیسیوں سے متعلق سوالات پوچھے۔ برادر امیر العظیم نے بڑی شائستگی سے جوابات پیش کیے۔ جہاں جہاںجماعت غلطی پر تھی کا بھی کھل کر اظہار و اعتراف کیا۔ امیر العظیم سے ایک دوست نے سوال کیا کہ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے فاٹا کی کالعدم مسلح مذہبی جماعتوں کی کارروائیوں کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ یقیناامیر العظیم کا جواب نفی میں تھا،قدرے تفصیل سے اپنی جماعت موقف بیان کر دیا ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ جماعت اسلامی اورجمعیت علماء اسلام ت خود ان مسلح گروہوں کے نشانے پر تھی۔ البتہ یہ بڑی جماعتیں امریکی ڈرون حملوں کے تدارک کا مطالبہ متوازی طور پرکرتی رہیں۔ا ور یہ سمجھتی تھیں کہ ان کارروائیوں میںقبائلی علاقوں کے عام عوام نشانہ بن رہے ہیں، املاک تباہ ہورہی ہیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ان گروہوں سے بات چیت کا مؤثر عمل پہل ہو اور فاٹا کے اندر گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔
فاٹا کا مسئلہ گمبھیر تھا جہاں بھانت بھانت کے گروہ بنتے گئے۔ غیر ملکی جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی ۔ ایسی صورت میں حکمت اور دانائی کے ساتھ معاملات کو دیکھنے اور پرکنے کی ضرورت تھی۔ ایسی جماعتوں اور شخصیات کی کمی نہ تھی جو افواج پاکستان سے وہاں فوجی آپریشن کا مطالبہ بڑے زور شور سے کیا کرتی تھی ۔ ان میں پشتون جماعتیں سرفہرست تھیں۔ ہم نے یہ مطالبہ تک سنا کہ امریکی و نیٹو افواج فاٹا میںبراہ راست فوجی کاروائی کریں۔ مولانا فضل الرحمان کہا کرتے تھے کہ بلوچستان میں بولی اور فاٹا میں گولی کی پالیسی چل رہی ہے۔ ہوا یہ کہ وہاں مسلح جتھے اس قدر منظم اور مضبوط ہوگئے کہ ملک کا شاید ہی کوئی شہر ، علاقہ اور مقام چھوڑا ہو جسے دہشتگردی کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ آخر کار آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا ۔ لاکھوں کی تعداد میں قبائلی عوام بے گھر ہو گئے ۔ آبادیاں، مارکیٹیں اور تجارتی مراکز آپریشن کے دوران ملیا میٹ ہو ئے ۔ فاٹا کے عوام تو گویا اپنے وطن میں اجنبی بن گئے۔ ان کی آباد کاری اور املاک کی تعمیر کے بندوبست جیسے مسائل پر احتجاجی شور بلند ہے۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے مسلح گروہ فاٹا کی آبادی میں پھیل گئے تھے ۔جنہوں نے چھائونیاں قائم کی تھیں ۔اسطرح کی مشکل پوزیشن میں اگر فوجی آپریشن کیاجانا ہو، تو سول آبادی کی منتقلی اور املاک کا نقصان لا محالہ ہو گا۔دہشتگرد گروہوں نے فرار ہوکر افغانستان میں ٹھکانے بنالیے ۔ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار ، داعش ،لشکر جھنگوی العالمی جیسی تنظیمیں ہنوز پاکستان کے شہروں میں تباہی پھیلارہی ہیں ۔ کوئی کونہ، کوئی گوشہ اور کوئی طبقہ ان حملوں سے محفوظ نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی سرکردہ دینی جماعتوں کی نیت اور حکمت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ افہام وتفہیم کے ماحول میں سیاسی حل کی طرف پیشرفت کی جائے ۔
سیاسی جماعتیں اب فوجی آپریشن کے بعد سے بننے والی صورتحال پر چیخ رہی ہیں۔ اور ریاست اس مشکل میں ہے کہ ساری کالعدم تنظیمیں بھارت اور افغان خفیہ اداروں کی پناہ گاہ میں آگئیں۔ جماعت اسلامی نے روسی افواج کے انخلاء کے بعد جب افغان جہادی تنظیمیں آپس میں متصادم ہوئیں، تو کسی کی حمایت و تعاون کی بجائے کشمکش کے اس رجحان کی مخالفت کی۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ افغانوں کی جیت شکست میں کیسے بدل گئی۔اس کے کئی اسباب و عوامل ہیں۔ ایک سبب پاکستان کی چودھراہٹ اور کوتا اندیشی تھی ۔ افغانستان کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے چھوڑا نہیں گیا اور یہ مطالبہ سردست حزب اسلامی ہی کا تھا کہ عبوری حکومت، عبوری آئین اور ا س کے تحت عام انتخابات ہو۔ چنانچہ اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ پہلی رکاوٹ صبغت اللہ مجددی کو عبوری صدر بنانا پھر معروضی حالات کے برعکس برہان الدین ربانی کا مسلط کیا جانا تھا ۔ یوں صبغت اللہ مجددی ہی کے دور ہی میں سابق کمیونسٹ باقیات کا اثرورسوخ پھیل گیا۔ رشید دوستم نے تو اسلام آباد کے سرکاری خفیہ دورے بھی کیے ۔ گویا ایک ایسا افغانستان کہ جس میں آئین اور جمہور کی بالادستی و حکمرانی ہو قبول نہ تھا ۔ چنا ں چہ افغانستان میں بدامنی اور طوائف الملوکی کا خمیازہ لا محالہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔
آج بھارت جس طاقت و قوت کے ساتھ افغانستان میں موجود ہے ،میں ہماری اپنی ناموافق پالیسیوں کا دخل بھی ہے ۔ کاش ہماری سیاسی و عسکری قیادت دور اندیش اور معاملہ فہم ہوتی تو آج افغانستان غیروں کے ہاتھ میں ہوتا اور نہ پاکستان دہشتگردی اور غیر یقینی حالات سے دوچار ہوتا۔ مجھے دلی دکھ ہوا کہ جب 14فروری کی صبح ریلوے لائن کی حفاظت پر مامور چار سیکورٹی اہلکاروں کو دہشتگردوں نے سفاکیت سے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ میں سوچ میں پڑھ گیا کہ کاش ہم فاٹا کے مسلح جتھوں کو قومی و سیاسی عمل میں شریک کرتے اور میری نگاہ وہ دور دیکھنے لگی جب شکست خوردہ روسی افواج افغانستان سے نامراد لٹی پٹی حالت میں نکل گئی تھی اور افغانستان کے کمیونسٹوں کے لیے جائے پناہ نہ رہی۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان تاریخ کے ایک اور سیاہ دور میں داخل ہوا۔ کاش! افغانستان میں انتخابات کے لیے راہ ہموار ہوتی اور افغان عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ۔ تویقینا دونوں ممالک کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نہ ہمارے بچے مرتے اور نہ ہماری پولیس اور افواج نشانہ بنتی۔ اب بھی معروضی حالات کا جائزہ ایک قوم کی حیثیت سے لینے کی ضرورت ہے ۔ امیر العظیم سے پوچھا گیا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم رہی ہے ۔ جواب دیا کہ اگر ایسا ہوتا تو حکومتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی بجائے جماعت اسلامی کرتی۔ سچی بات یہ ہے کہ ملک میں سیاست کاروبار بن چکا ہے۔نہ نظریات رہے نہ تربیت کے سیاسی ادارے۔ سیاست کے تقدس کی بحالی کے ساتھ آزاد اور شفاف سیاسی و انتخابی نظام قائم ہو تو کسی کو شوخی سوچنے تک کی ہمت نہ ہوگی۔ عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور چار حلقے کھولنے کے لیے 2014ء میں اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا۔ اگر یہ دھرنا انتخابی نظام میں تبدیلی اور اصلاحات کے لیے دیا جاتا تو ملک کی سیاست میں جوہری تبدیلی کے امکانات روشن ہوتے ۔ خاص کر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابی نظام کی تشکیل کا فائدہ یقینی طور پر تحریک انصاف کو زیادہ ہوتا۔