دہشت گردی کے اسباب ختم کرنا ہونگے
شیئر کریں
جنرل (ر) راحیل شریف نے فوجی کمان کی تبدیلی کے موقع پر جو اپنی آخری تقریر کی اس میں انھوں نے واضح کیا تھا کہ ” سیکیورٹی کی پیچیدہ حالات اور درپیش چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے “ ۔ دہشت گردی کی سنگین وارداتوں کی تازہ لہر نے ایک مرتبہ پھر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے ۔ میں نے 2 دسمبر 2016 کو جنرل (ر) راحیل شریف کی رخصتی کے موقع پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ” جنرل (ر) راحیل شریف کا سفر تمام ہوگیا لیکن دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ ابھی ادھوری ہے “ ۔ اس کالم میں میں نے نشاندہی کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری قوی جنگ میں کونسا اہم محاذ نظر انداز ہو رہا ہے میں نے لکھا تھا کہ ” اس جنگ کے کئی محاذ گرم ہیں لیکن جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں کمی یہ رہی کہ اس جنگ کی فکری نوعیت کا پوری طرح ادراک نہیں کیا گیا پاکستانی معاشرہ عدم برداشت ، انتہا پسندی ، فرقہ واریت ، اور تعصبات کا پوری طرح شکار ہے یہ ماحول دہشت گردی اور دہشت گردوں کے لئے انتہائی سازگار ہے اور جب تک ماحول سازگار رہے گا دہشت گرد بنتے رہیں گے ۔ برداشت ، رواداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، باہمی اخوت اور محبتوں کا فروغ یہ سب ایک فکری ضرب عضب کا تقاضہ کرتا ہے اس مقصد کے لئے مساجد و مدارس سے لے کر تمام تعلیمی اداروں اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا تک اصلاحات لانے کی ضرورت ہے ، اُن اسباب کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو فرقہ اریت اور نسلی و لسانی تعصبات بڑھانے کا سبب بنتے ہیں ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں اور مختلف فرقوں کے کردار کا جائزہ لے کر ان کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا میں بیٹھ کر جو لوگ بیرونی ایجنڈہ چلا رہے ہیں ، دوسروں کی زبان بول رہے ہیں ، عدم برداشت ، نفرت ، تعصبات اور افرا تفری بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں ان کے گرد بھی شکنجہ کسنے کی ضرورت ہے ۔ مذہب اور دانشوری کے لبادے میں تعصبات کا کاروبار کرنے والوں کی آزادی پر بھی قدغن لگانے کی ضرورت ہے ۔ اُن لبرل انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کو بھی قومی مفاد کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے جن کی سرگرمیاں اسلامی انتہا پسندی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ ملکی میڈیا کو ملکی مفاد اور اسلامی اقدار کے منافی چلنے سے باز رکھنے کی ضرورت ہے “ ۔
یہ اس وقت کی تحریر ہے جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات رکے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دہشت گردی کا جن قابو میں آچکا ہے لیکن یہ بات پالیسی سازوں کو سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک بیماری کے اسباب ختم نہیں ہوجاتے بیماری کی علامات ختم کردینے سے بیماری ختم نہیں ہو جاتی ۔ گذشتہ ہفتے دو دنوں میں ملک کے چاروں صوبے میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ کا از سر نو تجزیہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کی روح دہشت گردی کو اس کے اسباب اور اس کے سہولت کاروں سمیت ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے فوجی جوان لاتعداد قربانیاں دے چکے اور مسلسل دے رہے ہیں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بے گناہ عوام اس جنگ کی نذر ہوئے ہیں یہ جنگ اب تک ہماری معیشت کو تباہ کن نقصانات پہنچا چکی ہے ۔ ہم نے بحیثیت قوم اس جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں انھیں ضائع ہونے سے اسی صورت میں بچایا جا سکتا ہے جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیابی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچائیں ۔
بد قسمتی سے دہشت گردی کے عفریت کو پورے طور پر سمجھا نہیں جا رہا ۔ دہشت گرد واردات کرنے میں بھی کامیاب ہیں اور پھر اس واردات سے وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمارے اپنے لوگ ان مقاصد کو پورا بھی کر رہے ہیں ۔ گذشتہ 20 سالوں میں ملک بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے انگنت واقعات کے بعد اب ہماری یہ کنفیوژن دور ہو جانی چاہئے تھی کہ دہشت گردوں کے مقاصد اور ان کا ایجنڈہ کیا ہے ؟ یعنی دہشت گرد ہمارے ملک کے دشمن ہیں ہماری قوم کے دشمن ہیں ہمارے اداروں کے دشمن ہیں ان کا ہدف ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانا ملکی مفادات کو نقصان پہنچانا دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانیوں کو بدنام کرنا ، ملکی معیشت کو تباہ کرنا ، پاکستانیوں کے اخلاق اور رویوں کو خراب کرنا ، ملک میں افرا تفری اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا ، لوگوں کو عدم تحفظ میں مبتلا کرنا ، ملکی اداروں اور محکموں کو ہنگامی حالات سے دوچار رکھنا وغیرہ ہے۔ یہ دہشت گرد کسی خاص مذہب ، کسی خاص فرقے ، کسی خاص نسلی یا لسانی گروہ کے خلاف نہیں بلکہ یہ ملک و قوم کے خلاف ہیں ۔ اسی طرح ان کا اپنا تعلق بھی کسی خاص فرقے سے نہیں کیونکہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے مدارس بورڈز کے سربراہ مستند علماءاور مذہبی جماعتیں انکی کاروئیوں کی مذمت کرتی ہیں ۔
جو عناصر سانحہ سیہون کی آڑ میں فرقہ وارانہ سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ دراصل دہشت گردوں کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں دہشت گرد تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ انکی کاروائیوں کے نتیجے میں فرقہ واریت بڑھے نفرتیں اور تعصبات فروغ پائیں ۔ ملکی میڈیا کے مخصوص عناصر بھی کھل کر اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ دہشت گرد کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور سیہون میں انھوں نے اپنے مخالف فرقے کو نشانہ بنایا ۔ دہشت گرد اور ان کی سرپرست پاکستان دشمن بیرونی قوتیں بھی یہی چاہتی تھیں کہ سیہون میں ہونے والی اس واردات کو اسی نظر سے دیکھا جائے یوں ان کے مقاصد کی تکمیل ہوئی اور کچھ عناصر دانستہ یا نا دانستہ دہشت گردوں کے سہولت کار بن گئے ۔
نیشنل ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کا بھی اگر کوئی انتظام ہے تو اس بات کی بھی مانیٹرننگ ہونی چاہئے کہ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد مذہبی و سیاسی جماعتوں اور شخصیات کا رد عمل کیا ہے؟ ٹی وی چینلز اور ان سے وابستہ اینکرز اس پر کیا تبصرہ کر رہے ہیں ۔ تجزیہ نگار اور کالم نویس اس پر کیا بول اور لکھ رہے ہیں ؟ کیونکہ دہشت گردوں کا آدھا کام وہ دہشت گرد خود کرتے ہیں یعنی دہشت گردی کی واردات اور باقی آدھا کام دانستگی یا نادانستگی انھیں طبقات کے لوگ کر رہے ہیں ۔
٭٭