کراچی میں امن و امان کی صورتحال اور گورنر سندھ کے خیالات
شیئر کریں
سندھ کے گورنر محمد زبیر نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں حالات اب کافی بہتر ہوچکے ہیں اور شہر کو 10 منٹ میں بند کروانا اب ممکن نہیں ہے۔ محمد زبیر نے کراچی میں بدامنی کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو قرار دیا اور کہا کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں شہر کی ‘چابیاںایک علاقائی جماعت کے حوالے کردی گئی تھیں۔لیکن اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور ‘آج کراچی کو کوئی 10 منٹ تو کیا، 10 ماہ میں بھی بند نہیں کروا سکتا۔اس دعوے کے ساتھ ہی انھوں نے اس بات کابھی اعتراف کیاہے کہ صورتحال اب بھی بہت نازک ہے اور اگر کراچی آپریشن سے ذرا بھی توجہ ہٹائی گئی تو حالات پھر سے خراب ہوسکتے ہیں۔
گورنر سندھ نے اپنے انٹرویو میں کراچی کے حالات سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ان سے صرف ِنظر نہیں کیاجاسکتا ،اُن کا یہ کہنااپنی جگہ درست ہے کہ اب کراچی کو پہلے کی طرح کسی ایک کال پر منٹوں میں بندکروانا اور اس شہر کے لوگوں کو خوف ودہشت میں مبتلا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ساتھ ہی اُنھوں نے اپنے دل میں چھپے ہوئے خوف یا انتظامیہ کی جانب سے کراچی کے حالات سے متعلق دی گئی بریفنگ کی بنیاد پر یہ حقیقت بھی تسلیم کرلی کہ صورت حال ابھی تک پوری طرح حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کنٹرول میں نہیں ہے اور کراچی میں نظر آنے والا امن عارضی اور اسی وقت تک کے لیے ہے جب تک آپریشن کاسلسلہ جاری رہے گا، اور آپریشن رکتے ہی یا ماند پڑتے ہی صورتحال دوبارہ خراب ہوسکتی ہے ،تاہم اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو شہر کے حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔اس کے معنی یہ لیے جاسکتے ہیں کہ اب اگر کوئی بھی شہر کے حالات بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ،اس حوالے سے گورنر سندھ کا یہ کہنا اپنی جگہ بڑی حد تک درست ہے کہ ماضی میں بہت سی حکومتوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر شہر میں سیاسی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی، جن میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سرِ فہرست ہیں، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور میں بھی ایک علاقائی لسانی جماعت کومکمل آزادی تھی لیکن گورنر سندھ کایہ اعتراف کہ کراچی میں نظر آنے والی امن وامان کی صورت حال پائیدار نہیں بلکہ عارضی ہے اور آپریشن رکتے ہی یا آپریشن کرنے والی ایجنسیوں کی واپسی کی صورت میں حالات دوبارہ خراب ہوسکتے ہیں،اس صوبے کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے ان کافرض ہے کہ وہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے تدابیر اختیار کریں اور اس شہر میں سیاست کرنے اور اپنا حق جتانے والی تمام سیاسی ،علاقائی جماعتوں کے رہنماﺅں کو بٹھاکر ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے جس کے تحت اس شہر میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہوسکے۔ گورنر سندھ اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی بھی حکومت محض قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بیساکھی پر زیادہ دن قائم نہیں رہ سکتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن وامان کے قیام کی ذمہ داریوں کو تادیر اُلجھائے رکھنا کسی بھی طرح ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم،چوریوں اورڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے متعلق گورنر سندھ محمد زبیر کا یہ کہناکہ رینجرز آپریشن کا اسٹریٹ کرائم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کام پولیس کا ہے درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ رینجرز کو شہر میں اختیارات دینے کابنیادی مقصد یہی بتایاگیاتھا کہ رینجرز اہلکار پولیس کے ساتھ مل کرشہر کے حالات پر کنٹرول کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، گورنر سندھ کو اس حوالے سے یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ لوٹ مار ، ڈکیتی، بھتہ خوری اورڈکیتی کی واراداتوں کا دہشت گردی سے گہرا تعلق ہے کیونکہ دہشت گردی کے واقعات کے لیے رقم اسی طرح جمع کی جاتی ہے،ماضی میں بینکوں میں ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیے گئے متعدد ڈاکو اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ ڈکیتی سے حاصل ہونے والی رقم کاایک حصہ ملک میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم تنظیموں کو فراہم کرتے تھے ، پولیس کو وسائل کی کمی کے حوالے سے گورنر سندھ کا استدلال مکمل طورپر درست نہیں ہے اور اسے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے تراشے گئے عذر سے زیادہ کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
گورنر سندھ کو اب یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ اب تک کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی ناکامی کا اصل سبب یہی ہے کہ اس آپریشن کو کبھی بھی غیر متنازع رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی اور ہمیشہ آپریشن سے یہی تاثر پیدا کیاگیاکہ یہ آپریشن کسی خاص پارٹی جماعت یا معاشرے کے کسی خاص طبقے کے خلاف ہے،اس تاثر کی وجہ سے پولیس اور رینجرز کو اپنی کارروائیوں اور آپریشن میں عوام کی جانب سے مکمل تعاون حاصل نہیں ہوسکا جو آپریشن کی کامیابی کی کلید ثابت ہوسکتا تھا ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج گورنر کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑرہاہے کہ آپریشن کے نتیجے میں قائم ہونے والا امن دیرپا نہیں ہے اور توجہ ہٹتے ہی صورت حال دوبارہ خراب ہوسکتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکام کے فکری ابہام اور دہرے معیار کا اندازہ کراچی آپریشن سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں کچی بستیوں میں موجود کالعدم تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں اور دینی مدارس میں پروان چڑھائی جانے والی فرقہ وارانہ اور مسلکی منافرت کو نظر انداز کیا گیااور آپریشن کا رخ ایک سیاسی جماعت کی طرف محدود کردیا گیا حالانکہ کراچی بدامنی کیس کے حوالے سے عدالت عظمیٰ میں مسلح ونگز رکھنے والی پانچ جماعتوں کی فہرست جمع کرائی گئی تھی۔ لیکن آپریشن ان سب کے خلاف نہیں بلکہ صرف ایک جماعت کے خلاف ہوا۔ اس صورت حال میں گورنر سندھ اس صوبے میں پائیدار امن قائم رکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیا ر کرسکتے ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب غالباًخود گورنر سندھ کے پاس بھی نہیں ہے ورنہ وہ اپنے انٹرویو میں اس کے خدوخال کا ذکر ضرور کرتے۔