میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت کا بلدیاتی اداروں پر غیر قانونی قبضہ عروج پر پہنچ گیا

سندھ حکومت کا بلدیاتی اداروں پر غیر قانونی قبضہ عروج پر پہنچ گیا

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۲ جنوری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ:اسلم شاہ) پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی سمیت دیگر بلدیاتی اداروں پر غیر قانونی قبضہ کا عمل عروج پر ہے، بلدیاتی کونسل کے افسران و ملازمین پر ایس ایل جی ایکٹ 2013ء کے خلاف ورزی کرتے ہوئے از خود لوکل گورٹمنٹ کا ایک تحقیقاتی ادارہ بن گیا ہے،ایک طرف قانون کا غلط استعمال کرکے ملازمین سے لاکھوں روپے وصول کرنے کی موثر دکان کھل گئی ہے۔دوسری جانب وہ قانون کی غلط تشریح کرکے تمام ادارے کو گمراہ کررہے ہیں، لوکل گورٹمنٹ کمیش گزشتہ 12سال غیر فعال ادارہ کا قانون بلدیاتی اداروں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور محکمہ بلدیات سندھ کی بورڈ اچانک تفتشی، تحقیقاتی ادارہ یا تھانیدار بن گیا،آرڈر، تبادلے تقرری، برطرفی،معطلی کے پروانے روز جاری ہورہے ہیں ،لاکھوں کروڑ وں روپے رشوت وصول کرنے کی تصدیق افسران خود کررہے ہیں۔ لوکل گورٹمنٹ بورڈ میں ایک دکان کھل گئی ہے، اوروہ کراچی کے بلدیاتی اور ترقیاتی اداروں کے افسران کو سپریم کورٹ کے نام پر ڈرااور دھمکا رہا ہے۔ دوسری جانب وہ اس کے کارندے کے علاوہ دیگر افراد بھی افسران سے لاکھوں روپے وصولی مہم میں ملوث ہیں،بعض افسران کے خلاف مہم میں ناکامی کے باوجود نت نئے اندازسے مہم چلائی جارہی ہے اور سرکاری ریکارڈ ز کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے تمام حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے،قانون کے مطابق لوکل گورٹمنٹ بورڈ کو سندھ بھرکی بلدیاتی اداروں میں گریڈ17تک ملازمین کے تبادلہ و تقرری اور دیگر سروسز رولز پر عملدآمد کرنے کا اختیار ہے نہ پہلے کسی افسر نے استعمال کیا نہ کرنے کا اختیار ہے،وہ گریڈ20تک افسران کے تبادلہ وتقرری کے علاوہ ماضی کے تحقیقاتی رپورٹ کے نام پر باز پرس کرنے کا اختیار حاصل نہیں، جبکہ سیکریٹری بلدیات نجم احمد شاہ کی نگرانی میں لوکل گورٹمنٹ بورڈ کی تمام سرگرمیوں عروج پر ہیں۔ تبادلے تقرری کے نام پر افسران اور ملازمین سے رشوت کمیشن اور کک بیک بڑے پیمانے پر وصولی کا گھناؤنا کاروبار بڑے پیمانے پر جاری ہے۔کراچی کے بلدیاتی ملازمین کی آڑ لے کر سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ کی جانب سے ملازمین کوطلب کئے جانے کا سلسلہ تھم نہ سکا،کارروائیوں میں تیزی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ محکمہ بلدیات سندھ بہت جلدی میں ہے جس کے پیچھے مقاصد کیا ہیں آہستہ آہستہ عیاں ہونا شروع ہوچکے،شہری خدمات پر معمور افسران وملازمین سروس ریکارڈ لے کر طلب کئے جارہے ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت محکمہ بلدیات سندھ میں گزر رہا ہے پھر ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بلدیاتی خدمات بھی سر انجام دے سکیں،بلدیاتی اداروں کا ماحول انتہائی کشیدہ بنانے میں سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ بازی لے جا چکا ہے۔بلدیاتی افسران وملازمین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ دراصل بلدیاتی ملازمین کی تضحیک کیلئے روزانہ کی بنیاد پر کام کئے جارہے ہیں،سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ لیٹر یا نوٹیفکیشن کا اجراء کرنے میں اتنی تیزی دکھا رہا ہے کہ وہ لیٹر، حکمنامے یا نوٹیفکیشنز متعلقہ ادارے میں تین دن بعدپہنچتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا کی زینت بنا دیے جاتے ہیں تاکہ پہلے ہی ذلت کی چادر اوڑھا دی جائے، جو کہ سندھ سروس رولز کی سنگین خلاف ورزی ہے،بلدیاتی اداروں سمیت سندھ حکومت کے کسی بھی ملازم کیخلاف کوئی بھی کارروائی کی جائے اسے کونفیڈینشل پوسٹ قرار دے کر روانہ کیا جاتا ہے، لیکن سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ اسے یکسر نظر انداز کئے ہوئے ہے،اس وقت بلدیاتی سطح پر ہر کوئی سہما ہوا ہے، لہذا عدالت سے رجوع کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ بلدیاتی افسران وملازمین کا کہنا ہے کہ یکم فروری میں محکمہ بلدیات کے افسران کی طلبی کے دوران عدلیہ نے اجازت دی تو کچھ ثبوت ہم بھی پیش کریں گے جس سے عدلیہ کو یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ اصل کھیل کیا کھیلا جارہا ہے اور اس کی کڑیاں کہاں سے جڑی ہیں، ایک منظم طریقے سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اس کو مزید پھیلانے کی تیاریاں بھی مکمل ہیں، جو کچھ ہی عرصے میں واضح طور پر دکھائی دینے لگیں گی۔ بلدیات کے بعض افسران نے اعلیٰ عدالتوں سے ضمیر عباسی کے تمام حکمنامہ کالعدم قراردینے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔دریں اثناء SCUG (ایڈمن برانچ) کے BPS-19 افسر گل محمد کھوکھر، سینئر ڈائریکٹر، ہیومن ریسورس میں تعینات اور حکمنامہ واپس لے لیا گیا۔جمیل احمد فاروقی، کونسل کے ملازم، کئی سالوں سے سینئر ڈائریکٹر، ہیومن ریسورس مینجمنٹ کے ایم سی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں،SLGایکٹ 2013ء کی خدمت کی انتظامیہ کا سیکشن نمبر121. سندھ کونسل یوٹیڈیٹ گریڈزکا افسران وملازمین کی قانون بنانے کے بجائے 1982ء کا قانون کو عملدآمد کیا جارہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں