اورنج ٹرین اور ایجنٹ صحافی
شیئر کریں
سالگذشتہ کے آخری دنوں میں بیجنگ میں ہونے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ اجلاس سے جو ایک بہت ہی زیادہ اہم خبر ہم اہلِ لاہور کے لیے تھی وہ یہ کہ شہر میں زیرِ تعمیر اورنج میٹرو لائن کے منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے لئے ذاتی طور پریہ خوش کُن خبربھی تھی کہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ”ماس ٹرانزٹ “کے منصوبوں کو اقتصادی راہداری منصوبوں کاحصہ قرار دے دیا گیا ہے اور یوں وفاق کے علاوہ چاروں صوبو ں کے صوبائی صدر مقامات پربھی مسافروں کو سفری سہولیات دستیاب ہو جائیں گی۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر چہچہائے ہیں کہ کراچی کے ماس ٹرانزٹ منصوبے پر کام کے لیے چینی ماہر کراچی میں ’نازل ‘ بھی ہوچکے ہیں اور اگلے دو ہفتوں میں باقاعدہ پٹری بچھانے کے کام کا آغاز ہو جائے گا۔ ابھی تک تو اہلِ کراچی میٹرو بس کی خاک ہی پھانک رہے ہیں، امید ہے کہ اب ان کو ٹرین کی خاک پھانکنے کی سہولت بھی آئندہ کچھ سالوں کے لیے مہیا کر کے ان کا احساسِ محرومی دور کیا جائے گا۔اس سے قبل یہ عیاشی صرف اہلِ پنجاب کو دستیاب تھی جس پر حقوق غصب کرنے کا شور ڈالا جا رہا ہے، لیں آپ بھی چکھیں۔کیوں کہ اس منصوبے میں ابھی تو عدلیہ نے کودنا ہے اور ان منصوبوں پر اندھے اور لمبے حکم ہائے امتناعی جاری کر کے ان منصوبوں کی مدت اور لاگت میں اضافہ کرنا ہے ، اس لیے اے کراچی والو ،تیار ہو جاو¿ ، اہلِ لاہور کی طرح ’ترقی‘ کا مزہ چکھنے کے لیے۔ لیکن اس خبر کے ظہور کے بعد میرے جیسے بہت سے ایسے لاہوری صحافی منہ چھپاتے پھرتے ہیں جو میڈیا میں اس بات کا دفاع کرتے پائے جاتے تھے کہ لاہور کی اورنج ٹرین اقتصادی راہداری کا حصہ نہیں ہے۔ اس دفاع کی ایک وجہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی بہت سی بریفنگز تھیں جو انہوں نے مقامی صحافیوں کو بلا کردی تھی اور جس میں انہوں نے عدالتوں کی طرف سے اس معاملے میں مداخلت پر ان کے خوب لتے لیے تھے۔ ویسے بھی خادمِ اعلیٰ پنجاب ، محترم عدلیہ کے خلاف جو بھی زبان بولیں ان کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے، ہاں البتہ اس طرح کی آواز کسی اور صوبے سے اُٹھی ہوتی تو عدلیہ ضرور اس بات کو نوٹس لیتی ہے۔
خادمِ اعلیٰ اس کے بعد یہی مقدمہ لے کر عدالتِ عالیہ کے پاس بھی گئے لیکن عدلیہ نے تاریخی عمارتوں کی سلامتی کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کا دعویٰ، اور اس کی حمایت میں پیش کیے جانے والے بین الاقوامی اداروں کے سارے ثبوت عدالت سے اٹھا کر باہر پھینک دیے، جس پر خادمِ اعلیٰ خوب سٹپٹائے اور عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل لے کر عدالتِ عظمیٰ کے سامنے بھی جا پہنچے۔ اس دوران عدالیہ کے خلاف ڈھکے اور کھلے الفاظ میں مہم جاری رہی۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی خادمِ اعلیٰ کی گزارشات اچھی طرح ملاحظہ کیں اور ان کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
اس دوران ہم جیسے پنجاب حکومت کے ایجنٹ صحافی، دن رات میٹرو ٹرین کی تعریفیں لکھنے میں زمین و آسمان کے قلابیں ملانے میں مصروف رہے اور ہلکے ہلکے سروں میں عدلیہ پر تبریٰ بھی جاری رہا۔ اس دوران عدالت کے سامنے یہ بھی گلا پھاڑ کر کہا جاتا رہا کہ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کی اعلیٰ صلاحیتوں کی باعث چینی دوستوں نے پنجاب حکومت کو عطا کیا ہے ، اس کا اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی ہے مائی کالال کہ ان منصوبوں کے بارے میں زبان کھولے جہاں انچ انچ پر ناکامیوں، بدعنوانیوں اور سرکاری رقوم کی زیاں کی لمبی لمبی داستانیں رقم ہیں۔شاید کہ سرکار کی طرف سے ڈالے گئے اشتہارات کے راتب سے اتنی سی جگہ بھی نہیں بچتی کہ وہاں پر اشتہار دینے والوں کے قصیدوں کے علاوہ کچھ لکھا جا سکے اور یوں اخبار ات کے صفحات پورے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشاغل اور سرگرمیاں ہی اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ عام عوام کی یا پھر تنقیدی خبروں اور کالموں کے لیے پنجاب کے اخبارات میں کوئی جگہ ہی نہیں بچتی۔ جب کہ ٹی وی کے ایک گھنٹے میں سفارشی خبروں اور اشتہارات کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ مشکل سے پچیس منٹ ہی خبروں کے لیے بچتے ہیں۔
خیر اس دوران خادمِ اعلیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے تیور دیکھ کر راستہ بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے جونیئرافسران کی فوج ظفر موج سے پوچھا کہ اگر ہم عدالتی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں کر لیں تو اس سے اخراجات میں کس قدر اضافہ ہو گا؟ انہوں نے جمع تفریق کر کے خادمِ اعلیٰ کو بتایا کہ ان تبدیلیوں کی صورت میں منصوبے کی لاگت میں بائیس ارب روپے تک کا اضافہ ہو جائے گا ۔
اس بڑھتی لاگت پر قابو پانے کے مختلف طریقوں پر غور و خوض شروع ہوا تو پتہ چلا کہ اگر اس کی لاگت بڑھی تو ان بلند و بانگ دعووں کا کیا ہوگا کہ اس منصوبے میں سے ہم نے اتنے ارب کی بچت کی ہے؟ دوسری طرف اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے منگوائے جانے والے سامان کو کلی ٹیکس چھوٹ حاصل تھی ، جب کہ اورنج ٹرین کے پورے منصوبے کے لیے منگوائی جانے والی مشینری اور سامان پر ٹیکس کی مقدار بس یہی کوئی بیس بائیس ارب روپے کے لگ بھگ تھی ۔لہٰذا طے یہ کیا گیا کہ خادمِ اعلیٰ اپنا تھوکا ہوا چاٹیں گے اور لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین کو اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کروائیں گے ۔
لیکن آپ اگر مذاق نہ سمجھیں تو عرض ہے کہ خادمِ اعلیٰ شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ جی ہاں یہی شرمندگی تھی جو ان کے پاو¿ں کی زنجیر بن گئی اور وہ اقتصادی راہداری کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے بیجنگ نہ جا سکے۔ ظاہر ہے بڑبولے خادمِ اعلیٰ کس منہ سے اپنے رفقاءدوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا سامنا کرتے۔ لہٰذا لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین کے منصوبے کو اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کرنے کا نیک کام ان کی غیر موجودگی میں ہوا۔
ہمیں اس سے یہ بات سمجھ آ گئی کہ دراصل ایسے تمام بڑے منصوبے جن سے پنجاب کو کچھ فائدہ ملنا ہوتا ہے اس کے سامنے دوسرے صوبے جو دیوار بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں، تواس میں دوسرے صوبوں کی قیادت کے رویے سے زیادہ پنجاب کی قیادت کا بچگانہ اور بے صبراپن ہوتاہے۔ پنجا ب حکومت کی اس بچگانہ منصوبہ بندی کے باعث اہل لاہور کی مصیبتوں میں جو مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،یہ ہمیں ذاتی طور بہت دُکھتاہے کیوں کہ پنجاب حکومت نے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار چلا چلا کر یہ باور کروا دیا ہے کہ پنجاب میں دودھ اور شہر کی نہریں بہادی گئی ہیں جب کہ ادھر ہمارا آدھا لاہور ان منصوبوں میں تاخیر اور حکومت کی اس حوالے سے بے حسی کے باعث خاک پھانک پھانک کر گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال پہنچنے والا ہو گیا ہے۔
٭٭