میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خورشید ندیم کی دیانتداری؟؟

خورشید ندیم کی دیانتداری؟؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

رانگ نمبر
۔۔۔۔۔۔
عماد بزدار

خورشید ندیم اپنے 10 جون 2017 ء کے کالم میں خان صاحب کو بددیانت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
ایک واہمہ (Myth)باقی تھا کہ عمران خان ذاتی طور پر دیانت دار آدمی ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکی کہ یہ ذاتی دیانت کس چڑیا کا نام ہے ؟ یہ کیسے طے ہوتی ہے ؟ اگر کوئی سیاسی مخالفین کے معاملے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ کرے ۔ لوگوں کو حق و باطل نہیں، ذاتی وابستگی کے پیمانے پر پرکھے ۔ ایک کے عیب چھپائے اور دوسرے کے عیب نہ صرف تلاش کرے بلکہ الزامات کو مصدقہ حقائق بنا کر پیش کرے ، تو کیا اس کے بعد بھی اس کی ذاتی دیانت باقی رہتی ہے” ؟
آیئے خورشید ندیم کے کالمز کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا وہ خود دیانتداری کے اس پیمانے پر پورا اُترتے ہیں؟
چونکہ تحریک انصاف کو عقل و خرد سے بیگانہ ایک کلٹ ثابت کرنا مقصود تھا تو اپنے یکم اکتوبر 2022 کے کالم ”گروہ عمران یا سیاسی جماعت” میں لکھتے ہیں
”ایک خاتون کی ویڈیو بھی آپ نے دیکھی ہوگی جو رو رو کر کہہ رہی ہے کہ میرا حج عمرہ قبول ہو نہ ہو ، یہی بہت ہے کہ میں نے عمران
خان کو دیکھ لیا ۔ آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے :کیا ذہنی طور پر ایک صحت مند آدمی اس طرح کی حرکت کرسکتا ہے ”؟
میں نے یہ ویڈیو نہیں دیکھی خورشید ندیم صاحب کہہ رہے ہیں تو مان لیتے ہیں سوشل میڈیا پر خاتون یہ کہتی رہی اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ کوئی گمنام خاتون ہوگی یا تحریک کی کوئی بڑی لیڈر نہیں ہونگی اس کے برعکس نون لیگ کے ایک سینئر ترین لیڈر رانا ثنا اللہ کو جب مبشر لقمان نے کہا کہ آپ حج پر نہیں جا رہے میاں کا استقبال کرنے نہیں جارہے تو رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا”یہ حج سے بڑا کام ہے”۔اس پر مبشر لقمان استغفر اللہ کہتے ہیں اسے بار بار ٹوکتے ہیں لیکن رانا ثنا اللہ بار بار یہی کہتے پائے گئے کہ نواز شریف کا استقبال” حج سے بڑا کام ہے”۔ مبشر لقمان کے ٹوکنے پر کہتے ہیں ” اس سے بڑا جو ہے وہ کوئی مقدس کام ہو نہیں سکتا”۔رانا ثنا اللہ کے ساتھ ساتھ ایک اور مسلم لیگی رہنما چوہدری اسدالرحمان کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ میاں کے استقبال کے لئے جانے والوں کو جنت کی خوشخبری سنا رہا ہے۔
اب آپ ذرا موازنہ کریں ایک طرف پی ٹی آئی کی کوئی گمنام خاتون (گوکہ اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی ) دوسری طرف نون لیگ کے نامی گرامی لیڈرز نواز شریف کے بارے میں ٹی وی پر مبالغہ آمیز گفتگو کرتے ہیں لیکن خورشید ندیم کے قلم کو مسلم لیگ میں نہ کوئی کلٹ نظر آتا ہے نہ ہی زومبی اور نہ ہی کسی کی ذہنی صحت مشکوک نظر آتی ہے ۔
عمران خان کسی زمانے پروفیسر رفیق اختر کے پاس جاتے رہے ہیں۔ تب پروفیسر رفیق اختر پر ایک کالم” جدید صوفی”کے عنوان سے
12 جون 2013 ء کو لکھا۔ اس میں نام لیے بغیر پروفیسر رفیق اختر کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ہاں ایک نئی روایت مقبول ہوئی ہے ۔اب ”صوفیا” کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا ہے جس کا تصوف کی قدیم روایت سے تعلق نہیں ہے ۔ انہیں کسی نے خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ وہ خود روایت ساز ہیں اور روایت شکن بھی۔یہ ان معنوں میں کہ ان کا”سلسلہ”ان کی ذات سے شروع ہوتا ہے اور ان ہی پر تمام ہو جاتا ہے ۔ ان کا حلیہ بھی جدید ہے ۔ اکثر کلین شیوہونے کے ساتھ، سگریٹ نوشی اور دیگر عصری مشاغل میں ایک عام آدمی سے مختلف نہیں۔ان کی خانقاہ،ان کی بیٹھک یا گھر کا ڈرائنگ روم ہے ۔ اکثر کا حلقہ ٔ اثر اہل سیاست،بیوروکریٹ، فوجی افسران یا بالعموم متمول تاجر ہیں۔عوام کا گزر ان کی مجالس سے کم ہی ہو تا ہے ۔ رائے ساز طبقات جن میں کالم نگار سرِ فہرست ہیں، ان کے حلقئہ ارادت میں نمایاں ہیں جو ان کی شہرت کو چند دنوں میں ملک گیر بلکہ عالم گیر بنا دیتے ہیں۔ یہ ” صوفیا”
لوگوں کی روحانی بالیدگی ہی کا اہتمام نہیں کرتے ، ان کے فکری مغالطے دور کرتے اور اس کے ساتھ مریدوں کی دنیاوی ترقی میں بھی اہم کردار کرتے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ان جدید صوفیاکے پاس آنے والے نوے فی صد لوگ اُسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔انہیں اپنے ”مرشد” کے فکری کمالات یا ذہنی رحجانات سے زیادہ غرض نہیں ہوتی۔ وہ ان کے خطبات پر سر دھنتے ہیں اور پہلے ہی سے قائل ہوتے ہیں کہ جو نکتہ آفرینی مرشد نے کر دی وہ حرفِ آخر ہے ۔آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے جو روحانی بالیدگی کے لیے آتے ہیں۔ چونکہ اہلِ اقتدار اور سول و ملٹری افسر شاہی میں بھی ان لوگوں کا بہت اثر رسوخ ہوتا ہے ، اس لیے لوگ ایک دنیاوی ایجنڈے کے ساتھ بھی ان کے پاس آتے اور کبھی مایوس واپس نہیں جاتے ”۔
خان صاحب کا تعلق جب پروفیسر رفیق اختر سے ٹوٹ گیا تو اچانک پروفیسر صاحب کے درجات بلند ہوگئے اور وہ”جدید صوفی” جس
کا 2013 میں مذاق اڑیا جا رہا تھا 2018 میں اللہ کو ترجیح اول بنانے والے صوفی بن گئے ۔11 جنوری 2018 کے اپنے کالم ”عمران کا نفسیاتی بحران” میں لکھتے ہیں:
”عمران کو پروفیسر رفیق اختر صاحب کی دہلیز تک بھی لے جایاگیا لیکن یہاں سے فیض پانا شاید ان کے مقدر میں نہیں تھا۔
پروفیسرصاحب میاں بشیر طرز کی روحانی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے واقف ایک صوفی ہیں
پروفیسر صاحب بھی انسانی کمزوریوں اور مسائل کا حل اسمائے حسنیٰ کے دہرانے میں بتاتے ہیں مگر اس کے ساتھ لوگوں کو
ایک مشکل سوال کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ ان کی ترجیحات میں کہاں ہے ؟ ان کے نزدیک انسان کی کامیابی
کا انحصار اس سوال کے جواب پر ہے ۔ یہ روحانیت لگتا ہے عمران خان کو زیادہ بھائی نہیں۔ وہ دہلیز تک تو آئے مگر یہیں سے
لوٹ جانا مناسب سمجھا”۔
توشہ خانے سے خان صاحب کی گھڑیوں کا معاملہ سامنے آیا توچونکہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ خان کے سیاسی مخالفین گھڑیوں سے بڑی چیزیں یعنی گاڑیاں ( جو توشہ خانے کے قانون کے تحت لی بھی نہیں جا سکتیں ) توشہ خانے سے سمیٹ کر گھر لے جا چکے اور یہ کہ توشہ خانے کے قوانین کے تحت خان صاحب نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا تو وہاں تب اخلاقی وار سے خان صاحب پر اپنے پچیس اکتوبر 2022 کے کالم ”خان صاحب اور توشہ خانہ”میں اس طرح حملہ آور ہوئے:
”توشہ خانے سے جڑے قضیئے کا ایک پہلو اس کے قانونی پہلو سے کہیں بڑھ کر اہم اور ہماری توجہ کا سزاوار ہے”۔
آگے لکھتے ہیں
”خان صاحب اور توشہ خانہ کے عنوان سے مشہور ہوئی اس کہانی کا یہ پہلو سیاسی ہے نہ قانونی۔ یہ اخلاقی بھی ہے اور
نفسیاتی بھی”۔
آخر میں لکھتے ہیں
”صفحہ تاریخ پر خان صاحب اور توشہ خانہ کے عنوان سے لکھی اس کہانی کو سیاسی اور قانونی سے زیادہ اخلاقی
اور نفسیاتی پہلو سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ مذہب ہو فلسفہ ہو یا سیاست، واقعہ یہ ہے کہ سچ کی نشانیاں انسان
کے چاروں طرف بکھری ہوتی ہیں مگر وہ ان کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ کوئی تعصب، کسی کی محبت، کسی سے نفرت
اس کے سامنے دیوار بن جاتی ہے ۔ان دیواروں کو گرانا ہی ہم سب کا اصل امتحان ہے ”۔
اب جب عدالت کے حکم سے تحائف لینے والوں کی لسٹ سامنے آئی تو پتہ چلا کورشید ندیم خود 26 اپریل 2017ء کو ایک بولگری
گھڑی بیس ہزار روپے میں گھر لے گئے تب سے ہم اس انتظار میں تھے کہ کب خورشید ندیم اپنے کالم میں اس معاملے کی نفسیاتی اوراخلاقی گھتیاں سلجھائیں گے کہ پتہ چلا کہ خورشید صاحب رحمت العالمین اتھارٹی کی چیئرمینی بھی لے اڑے ۔اب آپ دوبارہ خورشید ندیم کے کالم کا یہ حصہ پڑھیں اور سوچیں کہ وہ اپنے قائم کئے گئے معیار کے مطابق کتنے دیانتدار ہیں ”یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکی کہ یہ ذاتی دیانت کس چڑیا کا نام ہے ؟ یہ کیسے طے ہوتی ہے ؟ اگر کوئی سیاسی مخالفین کے معاملے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ کرے ۔ لوگوں کو حق و باطل نہیں، ذاتی وابستگی کے پیمانے پر پرکھے ۔ ایک کے عیب چھپائے اور دوسرے کے عیب نہ صرف تلاش کرے بلکہ الزامات کو مصدقہ حقائق بنا کر پیش کرے ،تو کیا اس کے بعد بھی اس کی ذاتی دیانت باقی رہتی ہے” ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں