میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نظام سے ٹکراﺅ۔۔! سندھ پولیس میں بہتری کا خواب ادھورا رہ گیا

نظام سے ٹکراﺅ۔۔! سندھ پولیس میں بہتری کا خواب ادھورا رہ گیا

منتظم
بدھ, ۲۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

اے ڈی خواجہ محکمہ پولیس میں اصلاحات کیلئے دیرپا پالیسی پر عمل درآمدمیں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے
میرٹ پر بھرتیوں کے معاملے پرسیاسی آقاﺅں نے آئی جی سندھ کے پیر کے نیچے سے زمین کھینچ لی
وحید ملک
سندھ پولیس میں سیاسی مداخلت، جرائم پیشہ اہلکاروں کی چھان بین اور غیرقانونی بھرتیاں ختم کرکے شفاف بھرتیاں کرنا، کرپشن کے خاتمے کے اقدامات، یہ وہ اہم ترین ٹاسک تھے جو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پولیس اصلاحات کے ذریعے متعین کئے تھے۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نو ماہ کے مختصر عرصے میں کچھ نہ کچھ اصلاحات تو لے آئے لیکن پولیس میں سیاسی مداخلت کو کنٹرول کرنا خواب ہی رہا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ پولیس میں کرپشن، غیرقانونی اور غیرشفاف بھرتیوں،انویسٹی گیشن فنڈز میں خوردبرد، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری میں کرپشن، غیرقانونی اور خلاف ضابطہ ترقی اور تقرریوں کے خلاف کئی اہم فیصلے صادر کئے تھے۔یہ فیصلے سابق آئی جی سندھ واجد علی درانی کے بیان کو عدالت نے ریکارڈ پر رکھ کر دیے،جن میں کہا گیاتھا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت موجود ہے، جس کی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہیں دے پاتی۔سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو عدالتی حکم پر عہدے سے ہٹادیا گیا تھا،پولیس کے تحقیقاتی فنڈز، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری، ویلفیئر فنڈز اور غیرشفاف بھرتیوں کے ذریعے اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں غلام حیدر جمالی، غلام قادر تھیبو، خادم حسین بھٹی، فداحسین شاہ، تنویرطاہرسمیت کئی افسران پر الزامات عائد ہوئے اور عدالتی کارروائی کا حصہ بنے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے سپریم کورٹ کے احکامات پر شفاف بھرتیوں، فنڈز میں کرپشن، پولیس میں ترقیوں سے متعلق مسائل، ٹریفک پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوسکے۔اے ڈی خواجہ محکمہ پولیس میں اصلاحات کیلئے دیرپا پالیسی پر عمل درآمد کو یقینی بنارہے تھے، انہوں نے بڑی حد تک شفاف بھرتیوں کو یقینی بنایا، پولیس ویلفیئر فنڈز کو شفاف کرنے اور شہدا کے خاندانوں کی ہرممکن معاونت کے لیے اقدامات کئے۔پولیس میں نچلی سطح پر ترقی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور سپاہیوں کو معیار اور میرٹ کے مطابق ترقیاں دیں۔پولیس ملازمین کا سروس ریکارڈ اور پیٹی ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے اقدامات کئے جبکہ تحقیقاتی فنڈز بڑھایا اور تمام اضلاع کیلئے جاری کرایا، انہوں نے فنڈز میں کرپشن کی روک تھام کی، ٹریفک کے مسائل کے حل کی کوششیں کیں،لیکن پولیس میں سیاسی مداخلت کے معاملات انہیں دو ر نہ کرنے دیے گئے۔پولیس کے آزادانہ اور شفاف کردار کے حامی پولیس آفیسر اے ڈی خواجہ کو اپنی ٹیم مکمل کرنے دی گئی نہ ہی مکمل اختیار دیا گیا۔
سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ کی جانب سے بھی یہ کوشش سامنے آئی کہ آئی جی سندھ کو بااختیار بنایا جائے اور مداخلت کو کم سے کم کیا جائے لیکن سیاسی قوتیں اس عمل میں رکاوٹ رہیں اور یہی اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کی بڑی وجہ بنی ۔ایک بااثر شخصیت کے فرنٹ مین اور قریبی رشتے دار جو خود سیاسی شخصیت ہیں ،وہ کاروبار میں پولیس کو استعمال کرنے اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں نہ کرنے پر شدید ناراض نظر آئے اور آخر کار سندھ میں کرپشن پریکٹس، سیاسی مداخلت، انفرادی مفادات کی سیاست کی ایک مرتبہ پھر جیت نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومت کے کہنے پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ رخصت پر چلے گئے ہیں اور خیال یہی کیا جارہا ہے کہ ان کی خدمات جلد ہی وفاقی حکومت کے حوالے کردی جائیں گی۔صوبائی حکومت کی سفارش پر رواں سال 12مارچ کووفاقی حکومت نے اے ڈی خواجہ کوسندھ کا نیا آئی جی مقرر کیا تھا، اس سے قبل سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو پونے 2سال فرائض انجام دینے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا، جو اس وقت نیب کی جانب سے قائم کئے گئے کرپشن الزامات کا عدالتوں میں سامنا کررہے ہیں۔14سال کے دوران سندھ اور پنجاب میں ایک درجن سے زائد انسپکٹر جنرل آف پولیس کو تبدیل کیا جاچکا ہے، 2002 سے 2016کے دوران پنجاب میں 11آئی جیز تبدیل ہوئے جبکہ سندھ میں اسی دوران 16آئی جیز کو تبدیل کیا گیاجبکہ 2008 سے اب تک پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے دو ادوار میں7جبکہ سندھ میں اسی دوران پیپلز پارٹی کی حکومت میں 11آئی جیز تبدیل ہوئے،اس دوران پنجاب کے موجودہ آئی جی مشتاق سکھیرا صوبے میں طویل عرصے تک آئی جی کے عہدے پر فائز رہے،انہیں جون 2014 میں تعینات کیا گیا تھا اور ڈھائی سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ اس وقت اپنے عہدے پر کام کررہے ہیں۔جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ عرصے تک کما ل شاہ نے بطور آئی جی خدمات انجام دیں جن کا دورانیہ ڈھائی سال رہا۔ موجودہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو لگے 9ماہ کا وقت گزرا ہے اور اس دوران چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کا اغوا، ایس ایس پی راﺅ انوار کی معطلی، کلفٹن سے اسلحے کی برآمدگی اور سندھ پولیس میں بھرتیوں جیسے معاملات سامنے آئے۔انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق 25نومبر کو اے ڈی خواجہ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا بتا دیا گیا تھا تاہم اس وقت ان کو ہٹائے جانے کی سفارش وفاق نے مسترد کردی تھی۔ آئی جی سندھ اور سندھ حکومت کے کرتا دھرتاﺅں کے درمیان پہلے دن سے اختلافات شروع ہوگئے تھے۔اے ڈی خواجہ نے پہلے روز ہی بعض افسران کو سندھ میں تعینات کرنے کی سفارش کی تھی اور ساتھ ہی کچھ کی خدمات لینے سے انکار کردیا تھا، اس حوالے سے دو مختلف فہرستیں صوبائی حکومت کے حوالے کی گئیں تھیں لیکن یہ درخواست منظور نہیں کی گئی، اس سال 20جون کو سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو کلفٹن سے اغوا کرلیا گیا، اس وقت کے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے ایس ایس پی ساﺅتھ ڈاکٹر فاروق کا تبادلہ کردیا تھا۔کچھ عرصے کے بعد ایک غیر سیاسی شخصیت کی جانب سے دباﺅ ڈالا گیا کہ ڈاکٹر فاروق کو ایس ایس پی ایسٹ لگادیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا،اس صورتحال نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور سندھ حکومت کے بڑوں کوآمنے سامنے کھڑا کردیا۔16 ستمبر کو اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کو سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے معطل کردیا تھا۔اب راﺅ انوار کو دوبارہ ملیر کا ایس ایس پی تعینات کی جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں لیکن اے ڈی خواجہ کی جانب سے اس اقدام کو اٹھانے کی مخالفت کی جارہی تھی۔10نومبر کو کلفٹن کے ایک گھر سے اسلحے کی برآمدگی کی خبر سامنے آئی اور بتایا کہ برآمد ہونے والا اسلحہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نثار مورائی کا تھا ، بااثر شخصیات کا خیال تھا کہ میڈیا میں خبر پولیس کے اعلی افسران نے لیک کی، حقیقت یہ ہے کہ اسلحہ شوگر ٹائیکون کے بیٹے کے گھر سے نکلا تھا اوراسلحہ مبینہ طور پر ڈاکٹر نثار مورائی کا ہی تھا جسے ان کے اہل خانہ نے ان کی گرفتاری کے فوری بعد رینجرز کے چھاپے کے ڈر سے منتقل کرا دیا تھا۔ یہ اسلحہ کراچی کے ایک نامور پولیس افسر کی مدد سے شوگر ٹائیکون کے بیٹے کے گھر منتقل کیا گیا تھا۔جس وقت پولیس نے ایک اطلاع پر اس گھر میں چھاپا مارا، اس وقت مقامی پولیس گھر اور اسلحے کے مالک کے نام سے ناواقف تھی۔سندھ پولیس میں20ہزار بھرتیوں کا معاملہ بھی درپیش ہے، سندھ پولیس میں اس وقت تک تقریبا 12 ہزار بھرتیا ں کی جاچکی ہیں، یہ بھرتیاں پہلی دفعہ این ٹی ایس سسٹم، فوج اور سی پی ایل سی کی مدد سے کی گئیں جہاں سیاسی سفارش نہ چل سکی۔ اس کے علاوہ اہم ترین مسئلہ اندرون سندھ گنے کے کاشتکاروں سے گنے کی خریداری کا ہے جہاں پولیس کے ذریعے گنا شوگر ٹائیکون کی مل کو فروخت کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا جاتا ہے لیکن اے ڈی خواجہ کی جانب سے پولیس کو اس معاملے سے دور رہنے کی ہدایت کی جارہی تھیں۔ذرائع کے مطابق سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے حق میں نہیں تھے لیکن وہ بھی بالآخراپنی جماعت کے بڑوں کے سامنے بازی ہار بیٹھے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں