اور ایک نثار کی !!!
شیئر کریں
اسرار بخاری
یقینا ایک ذہنی الجھاو¿ سوال بن کر ذہنوں میں کلبلا رہا ہے کہ آصف زرداری کی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے واپسی اس دعوے کی توثیق ہے ”آپ نے تین سال بعد چلے جانا ہے ، ہم نے رہنا ہے ،ہم چاہیں تو کراچی سے پشاور تک پورا پاکستان بند کردیں ،ہمیں تنگ کیا گیا تو اینٹ سے اینٹ بجادیں گے “ بادی النظرمیں تو ایسا ہی نظر آرہا ہے تاہم واقعاتی شواہد اس کی توثیق نہیں کررہے ۔یعنی جب آصف زرداری نے جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا اس وقت جو صورتحال تھی یعنی جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں جو صورتحال تھی، جنرل قمر باجوہ کے آنے سے یہ جوں کی توں موجود ہے ، جنرل راحیل کے تین سال بعد چلے جانے کے باوجود ایسے حالات سامنے نہیں آئے جن سے ”فتح مندی “ کا تاثر ابھر سکے ۔مثلاً کراچی آپریشن کا تسلسل ، مجرموں کی گرفتاریاں ، چھاپے ، ڈاکٹر عاصم کا کیس ، عزیر بلوچ اور ایان علی جیسے معاملات سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا جنرل راحیل کے دور میں تھا ۔ اسی طرح دونوں ادوار میں آرمی چیف ،کورکمانڈروں ، ڈی جی آئی ایس آئی کے بیانات میں رتی برابر فرق خوردبین سے بھی تلاش نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ کراچی کے نئے کور کمانڈر نے تو کراچی کے امن کا سہرا رینجرز اور عوام کے سر باندھ کر سندھ حکومت کے کردار کو سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ اس لیے جنرل راحیل شخصی اعتبار سے تو چلے گئے ہیں مگر پالیسیوں کے اعتبار سے پوری طرح موجود ہیں اور جن اقدامات نے آصف زرداری کو آتش زیرپا کیا تھا ان کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹا ہے۔ ویسے یہ تو عقل کے اندھے کو بھی سمجھ آجائے گی کہ فوج کی ناکامی دراصل ریاست کی ناکامی ہوتی ہے اور کوئی ریاست اپنی ناکامی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ زرداری صاحب وطن واپس آکر سیاسی جوا ضرور کھیل رہے ہیں لیکن اس میں جیت کے امکانات اس لیے کم ہیں کہ حسب دل خواہ این آراو نہیں ہوسکا ،اس لیے یہ دھڑکا ہر آن فطری امر ہے کہ کسی بھی وقت اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کے ردعمل سے دوچار نہ ہونا پڑجائے اس لیے چند روز بعد گوشہ عافیت میں واپسی کا فیصلہ باعث تعجب نہ ہونا چاہیے ۔
اس مرتبہ آصف زرداری صاحب بیرونی کے ساتھ ساتھ اندرونی مشکلات کا بھی شکار ہیں اور یہ ان کی سیاسی زندگی میں پہلی بار ہے ،اگرچہ ان کی واپسی کو الیکشن کی تیاری کا نام دیا گیا ہے مگر یہ اس لیے قبل ازوقت ہے کہ ملک میں مڈٹرم الیکشن کے کوئی آثار نہیں ۔دوسرے لمحہ¿ موجود میں سوائے” بے نظیر کا بیٹا ہوں“ پیپلز پارٹی کی سیاسی پٹاری میں الیکشن جیتنے کے لیے کوئی سودا نہیں ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر مقبولیت کا گراف نیچے جارہا ہے ، ڈاکٹر نثار مورائی ، منظور کاکا ، شرجیل میمن ، آیان علی اور دیگر معاملات سندھ کی رائے عامہ پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں ، سندھ میں تعلیم کے فروغ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سیاسی شعور کی بالیدگی کی جو آبیاری ہورہی ہے وہ اندھی سیاسی عقیدت کو کمزور کررہی ہے ۔ یہ صورتحال ن لیگ کے لیے بہت سازگار تھی اگر یہ میثاق جمہوریت کی زنجیر پاو¿ں میں نہ ہوتی ۔ آج سندھ بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہونے کے نعرے لگانے والے پاکستان بنانے والی جماعت کی چھتری تلے زیادہ آسودگی محسوس کرتے، بہت ممکن ہے ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی جب کہ ایم کیو ایم لندن (کراچی میں موجود باقیات) بھی اس سے یوں آن ملتیں جیسے دریا سمندر میں آگرتے ہیں مگر سندھ تمہارا ، پنجاب ہمارا کی تقسیم نے یہ موقع گنوا دیا ۔
اب ایک خاص حکمت عملی کے تحت پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اس حد تک داخلے کی اجازت دی جارہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کا متبادل بن جائے مگر ن لیگ کے لیے خطرہ نہ بنے۔ اس لیے وزیراعظم کے خلاف بیانات کی حد تک مخالفت کا سلسلہ جاری ہے لیکن پیپلز پارٹی کی اصل گولہ باری کا ہدف چوہدری نثار ہیں ۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حقیقی بحالی کے لیے جو سرگرم ہیں ان میں اعتزاز احسن ، قمر زمان کائرہ ، ندیم افضل چند اور دیگر پیش پیش ہیں ، ان کا خیال ہے کہ اگر بلاول کا چہرہ سامنے رکھا جائے تو یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے ، مگر ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ زرداری کا چہرہ سامنے سے ہٹادیا جائے ،ہاں وہ پیپلز پارٹی کی سیاست سے وقتی طور پر ہی صحیح فاصلے پر چلے جائیں لیکن اس لیے ممکن نہیں ہے کہ زرداری جانتے ہیں کہ اگر وہ ایک مرتبہ بھی ذرا فاصلے پر ہوئے تو پھر یہ فاصلے بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ اس فاصلے کی دوری کا احساس ختم کرنے لیے ہی تو انہیں نے سندھ حکومت کو بے بس کررکھا ہے ۔قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ میں قائم اور مراد کے لفظ مختلف ہیں عملًا جتنے بااختیار قائم علی شاہ تھے اتنے ہی بااختیار مراد علی شاہ ہیں ۔ انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ کی جبری رخصت نے ان کے اختیارات کا پول کھول دیا ہے ،اس کے ساتھ ہی بلاول کے اس دعوے کی بھی نفی ہوگئی ہے کہ سندھ میں گڈ گورنس اور انتظامی معاملات میں تبدیلی آگئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فیصلوں کا مرکز آج بھی دبئی ہے ، وزیراعلی اور پوری کابینہ کو جہاں بار بار پھیرے لگانے پڑتے ہیں ۔
بہرحال پیپلز پارٹی کی جانب سے ن لیگ اور وزیر اعظم نوازشریف سے زیادہ چوہدری نثار اگر نشانے پر ہیں تو اس کی وجہ ڈاکٹر عاصم اور آیان علی جیسے معاملات ہیں ، پیپلز پارٹی کی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر چوہدری نثار وفاقی وزیر داخلہ نہ ہوں تو یہ معاملات نمٹائے جاسکتے تھے ، گو نثار گو کے نعرے اس خیال یا خواہش کا مظہر ہیں ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے سارے معاملات میں وزارت داخلہ ہی نہیں فوج بھی شریک ہے ، ویسے نثار کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کی جانب سے اپنے خلاف خاموشی سے سنتے رہتے ہیں پھر ”سو سنار کی ایک لوہار کی“ کے مصداق ایک ہی ضرب لگاتے ہیں۔ بلاول کی جانب سے شوخیوں کے اظہار پر ان کی جانب سے بچہ کہنے پر جواب میں بلاول نے ن لیگ کو گنجا لیگ اور فخریہ کہا کہ ہاں میں بچہ ہوں مگر بے نظیر شہید کا بچہ ہوں ۔بلاشبہ بے نظیر کا بچہ ہونا قابل فخر ہے مگر یہ تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بلاول کے نزدیک زرداری کا بچہ ہونا قابل فخر نہیں ،ورنہ کہا جاتا ہاں میں بے نظیر زارداری کا بچہ ہوں ،ویسے بلاول خود کو زرداری سے کیا وابستہ کرے جب خود زرداری نے اپنی ”نسل کشی “کرکے اسے بھٹو کا نام دے دیا ہے ۔ اب پارٹی کے لوگ ہی نہیںوہ خود بھی بلاول زرداری کے بجائے بلاول بھٹو کہتا ہے ، سچ ہے کہی سیاسی کھیل بڑا ظالمانہ کھیل ہے کہ انسان سیاسی مفاد کے لیے اپنی خاندانی شناخت سے بھی دست کش ہوجاتا ہے ۔ چوہدری نثار نے بڑے موقع پر ایک ضرب جاوید خانانی کی موت کی تحقیقات کا اعلان کرکے لگائی ہے جس نے پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال پیدا کردیا ہے ۔ اس کا فوری اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ لاکھوں افراد کی جانب سے زبردست استقبال کی تیاریاں ٹھس ہوکر رہ گئی ہیں اور اب ائیرپورٹ پر خطاب اور ہیلی کاپٹر پر روانگی کا پروگرام بنایا گیا ہے ، اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی کا رد عمل اور اس تازہ ترین تحقیقات کے اعلان سے اگر”احتیاط “ کا دامن تھامنا ناگزیر ہوجائے تو تعجب نہ ہونا چاہیے ۔
٭٭