سقوط ڈھاکا کے اسباب....قسط 5
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
انگریز جو تاجرکے روپ میں ہندوستان آئے تھے ان کی آمد کا سلسلہ تو 18 ویں صدی کے وسط سے ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر آہستہ آہستہ قدم جمانا شروع کر دیے۔ پہلے تجارتی سامان کے لیے گودام بنانے کے لیے طلب گار ہوئے پھر ملکیت کے۔ تجارت کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں گوداموں کے نام پر قلعہ تعمیرکرنا شروع کر دیے اور ان کی حفاظت کے لیے نفری کی بھرتی بھی شروع کر دی، بہتر سہولیات پر ملازمتوں کا سلسلہ شروع کیا ۔اس بھرتی میں اگرچہ ظاہری کام گوداموں کی حفاظت تھا یہ فوج نہیں تھی کہ جنگ اور جان کا خطرہ ہو تو مغل افواج کے سپاہی بھی اس جانب راغب ہوئے اور مغل افواج میں شگاف پڑ گیا ۔اب سپاہی کو جنہیں مغل فوج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ اور مراعات مل رہی تھیں،انہوں نے دیگر سپاہیوں کو بھی انگریزوں کے ان حفاطتی دستوں میں شامل کرانا شروع کر دیا اور اس طرح ” انگریز تاجروں” کو بڑی تعداد میں تربیت یافتہ فوجیوں کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ پھر ان میں ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو مغل فوج کا حصہ رہی تھی یوں وہ مغل افواج کی جنگیں صلاحیت اور اہلیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ مغلوں نے فوجی بھرتی میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں رکھا تھا ۔دوسری جانب رجواڑوں میں بھی فوجیں موجود تھیں اور ان رجواڑوں کے راجہ مہاراجہ کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی جن کی فوجوں میں بڑی تعدادہندوو¿ں کی تھی۔ اگرچہ رجواڑے قائم تھے لیکن اصل اقتدار دہلی کا تھا اور لاکھ مذہبی آزادی سہی لیکن غلامی کا ایک احساس موجود تھا اور اس احساس نے ہندو راجہ مہاراجاو¿ں کو انگریزوں کی مدد اور تاجداران دہلی سے بغاوت پر آمادہ کر دیا۔ جب انگریزوں نے قدم جما لیے تو انہوں نے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ابتداءمیں ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں نے باقائدہ جنگ کی صورت اختیار کر لی اور یوں 1857 میں انگریز ہندوستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔
دہلی پرقبضہ کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ساتھ انگریز نے جو سلوک کیا وہ تاریخ انسانی کا المیہ ہے مہذب اور حقوق انسانی کے دعویداروں نے گلی گلی محلہ محلہ سولیاں لگا دی جو انگریز کے قبضہ کے خلاف بات کرتا سولی اس کا مقدر بن جاتی۔
جب دہلی پر قبضہ ہوا تو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے دہلی کے قلعہ میں واقع خفیہ راستہ سے باہر نکلنے اور پھر سے منظم ہونے کا فیصلہ کیا لیکن مسلمانوں کو دشمن سے زیادہ نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے، بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب وہ اپنے رفیقوں کے ساتھ خفیہ سرنگ سے دہلی سے تقریباً 100 میل دور باہر نکلا تو وہاں انگریز فوج کا اپنا منتظر پایا اور اس انگریز فوج کے ساتھ شناخت کے لیے کوئی اور نہیں بہادر شاہ ظفر کا سسر موجود تھا جس نے انگریز سرکار سے بھاری انعام اور جاگیروں کے وعدے پر داماد سے غداری کی تھی اس کو انعام تو ملا لیکن سارے جہاں کی ذلت ورسوائی کے بعدنقد انعام اس طرح ملا کہ کچہری میں بلند آواز میں پکارا گیا ” غدار فلاں ابن فلاں حاضر ہواور اپنا معاوضہ غدار ی وصول کرے” اس نقد انعام کے ساتھ اس خاندان کے لیے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر ہوا تھا جو دہلی کی کچہری میں اسی طرح آواز لگا کر دیا جاتا تھااور اس آواز لگانے کا وقت بھی ایسا منتخب کیا گیا تھا کہ جب کچہری عوام سے بھری ہوتی تھی۔ اس ذلت آمیز رویے پر غداروں کے سرغنہ نے انگریز نمائندے سے عرض کیا کہ وظیفہ ادائیگی کا طریقہ بدل دیا جائے یا کم از کم صبح سویرے یا شام گئے وظیفہ ادا کیا جائے کہ ان اوقات میں مقامی لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور اس طرح یہ خاندان ذلت ورسوائی سے بچ جائے گاتو انگریز نمائندے نے تاریخی جواب دیا تھا ” غداروں کی کوئی عزت نہیں کرتا جو اپنے داماد کا نہ ہوا ،نواسوں کا قتل برداشت کر گیا وہ ذلت کے بعد بھی ہمارا وظیفہ لینا نہیں چھوڑ سکتا، وظیفہ لینا ہے تو اسی طرح لو ورنہ دستبردار ہو جاو¿ اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہمارا کام تو مکمل ہو چکا” ۔
1857 میں دہلی پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد انگریز نے خاک وخون کی وہ ہولی کھیلی کے ہلاکو خان، چنگیز خان اور تارتاریوں کی روحیں بھی اس بربریت پر تڑپ اُٹھی ہونگی۔ ہندوستان کا اقتدار انگریزوں نے مسلمانوں سے چھینا تھا یوں ہندوو¿ں کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا ،وہ پہلے بھی غلام تھے اب بھی غلام ۔بس آقا ہی تو تبدیل ہوئے تھے لیکن مسلمان زخم خوردہ تھے اور 1857 میں ہی مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد شروع کر دی تھی انگریزوں اور ہندوو¿ں نے اسے غدر کا نام دیا اور یہ تو حقیقت ہے کہ جو جدوجہد ناکام ہو جائے تو غداری اور بغاوت کہلاتی ہے اور کامیاب ہونے پر انقلاب کا نام پاتی ہے۔ انگریزوں نے پہلا وار تو یہ کیا کہ ہندوستان میں اس وقت رائج فارسی کو دیس نکالا دے دیا انگلش سرکاری زبان قرار پائی جسے مسلمانوں نے ابتداءمیں فرنگی زبان کہہ کر اس کو اپنانے سے گریز کا راستہ اختیار کیا ۔ہندوو¿ں نے انگلش کی تعلیم کا سلسلہ فوری شروع کر دیا ایک طرف مسلمانوں کی اکثریت نے انگلش کو قبول نہیں کیا تھا تو دوسری جانب ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آیا جس نے عربی اور فارسی کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہوئے انگریزی کو ہی اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا۔ انگریزی بین الاقوامی رابطہ کی زبان ضرور ہے لیکن دنیا پر نظر ڈالی جائے تو صرف ان قوموں نے ترقی کی ہے جنہوں نے اپنی مادری زبان کو اپنے بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنایا ہے۔ چین ،جاپان، کوریا ،جرمن، فرانس، ہالینڈ وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
انگریز اگرچہ ہندوستان پر قابض ہو گئے تھے لیکن یہاں کی ہیئیت ترکیبی نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ ہندوو¿ں کو ساتھ ملائے بغیر اس قبضہ کو تادیر برقرار رکھنا ان کے لیے ممکن نہ ہو گا ۔1857 میں خاک وخون کا بازار گرم کرنے اور چند مفاد پرست مسلمانوں کو ساتھ ملانے کے باوجود مسلمانوں کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے، ہاں اس کی شدت میں کمی ضرور آ گئی تھی۔ مغربی طرز سیاست منافقت سے بھری ہوئی ہے ، انگریز کی سیاست کا اُصول اختلاف کو ہوا دینا رہا ہے ” تقسیم کرو اور حکومت کرو”۔ انگریزوں کی اس سیاست کے نتیجے میں انہوں نے ہندوستان میں ہندوو¿ں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ہر وہ قدم اُٹھایا جس سے ہندوستان میں ان کا قدم مضبوط ہو سکے ۔انگریز مسلمانوں سے خوفزدہ تھے انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیل دیا ۔مسلمان بچوں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ کو ازحد مشکل بنا دیا لیکن جب اس کے باوجود بھی انہیں اپنا مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آیا تو انہوں نے مسلمانوں میں تقسیم کا عمل شروع کیا اور فقہ کے اختلاف کو اس از حد ہوا دی گئی کہ فقہ کو انگریز کے نوازے ہوئے "علمائ” نے مذہب کا نام دے دیا۔ یہ انگریزوں کا مسلمانوں پر کثیرالجہتی حملہ تھا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو حنفی ،شافعی، حنبلی ، مالکی اور جعفریہ میں تقسیم کیا ۔ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت حنفی مسلک سے تعلق رکھتی تھی شافعی ،حنبلی اور مالکی کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی یوں اس حملے کے باوجود مسلمان کو صرف دو حصوں میں بانٹا جا سکا تھا حنفی اور جعفری،ان دو فقہوں میں بھی حنفی مسلم آبادی کا 85 فیصد سے زائد تھی، یوں یہ تقسیم بھی کارگر نہیں تھی اور حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والوں میں مزید تقسیم کے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ یوں حنفی مسلک میں بھی تقسیم کے راستے ڈھونڈے گئے ۔ (جاری ہے)
٭٭