پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج
شیئر کریں
رفیق پٹیل
سینیٹر فیصل واوڈا نے چیلنج کیا ہے کہ چوبیس نومبر کے احتجاج میں پی ٹی آئی ارکان اسمبلی 50،50افرد بھی نہیں جمع کرسکتے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا اس پر ردّعمل کیا ہوگا؟ اتوار کے روز اس کا فیصلہ ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی کی مخالفت کی وجہ سے فیصل واوڈا کو کسی خاص اشارے پر میڈیا میں اہمیت دی جاتی ہے۔ کراچی کے ایک بڑے بزنس مین فیصل واوڈا جو شایداپنی ذاتی حیثیت میں ایک بلدیاتی کو نسلر کی نشست پر بھی کامیاب نہیں ہوسکتے اپنی دولت کی بنیاد اور کسی کی کی سرپرستی کی وجہ سے سینیٹر ہیں۔ بعض موقعوں پر ان کو میڈیا میں بلاول بھٹو سے بھی زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جیسے انہیں ملک کا وزیر اعظم بنائے جانے کے امکانات ہوں۔ ہو سکتا ہے کسی پس پردہ معاملات کے نتیجے میں اگر کوئی معجزہ ہوجائے تو وہ وزیر اعظم یا کسی اور بڑے عہدے پر پہنچ جائیں۔ شاید ہی دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ایسی سیاست کی کوئی مثال ملتی ہو، اب وہ پریس کانفرنس کرکے ترقی یافتہ ممالک کے اراکین پارلیمنٹ کوجمہوریت سکھارہے ہیں۔ مغرب اور امریکا کوبرا کہہ رہے ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا میں عمومی طور پر صرف ان سیاسی رہنماؤں کو اہمیت دی جاتی ہے جن کی عوام میں پذیرائی ہوتی ہے۔ کسی بھی سیاست دان کی کامیابی کا بالکل سادہ پیمانہ ہے اوّل اسے عوام میں کس قدر حمایت اور مقبولیت حاصل ہے ۔دوئم وہ کس قدر موضوع بحث رہتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اس پیمانے پر آسانی سے پرکھے جا سکتے ہیں ۔ہر تجزیے میں عام طور پر ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مقبولیت کا ثبوت 8فروری کے انتخابات تھے۔ اب امریکہ نے بھی ان انتخابات کو فراڈ قرار دیا جس میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا تھا۔عمران خان نے اس مرتبہ براہ راست عوام کو اتوار کے روز ڈی چوک اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے کی اپیل کردی ہے۔
24 نومبرکو پی ٹی آئی کا احتجاج کی شکل میں جو طوفان آرہا ہے تبدیل شدہ حالات میں اس کو روکنے کی کوشش ،عوامی حمایت سے محروم حکمراں جماعتوں کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگی۔ اس احتجاج کاسابقہ طریقہ کار اور روایتی طریقے سے روکنا ایسی بندوق سے فائر کرنے کے مترادف ہوگا جس کی نالی کا رخ چلانے والے کی جانب ہوتا ہے۔ ایسی بندوق سے چلائی گئی گولی چلانے والے کو لگتی ہے یعنی حکومت کے ایسے اقدامات جس سے تمام تر نقصانات سرکاری سیاسی جماعتوں کو ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر صورت حال میں بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں ۔اس کی بہت سادہ سی وجوہات ہیں پی ٹی آئی کے اعلانات کے مطابق یہ احتجاج عالمی سطح پر ہو رہا ہے جس میں ممکنہ طور پر امریکہ، برطانیہ،کینیڈا، فرانس ، جرمنی ،آسٹریلیااور دیگر ممالک میں بھی احتجاج ہوگا۔ یہ ایک روزہ احتجاج نہیں بلکہ طویل مدّت احتجاج ہے۔ ہوسکتا ہے اس موقع پر احتجاجی جلوسوں کو اسلام آباد پہنچنے میں کئی روز لگ جائیں او ر جلوس کے شرکاء کرفیو جیسی رکاوٹ کو عبور کرنے میں دس روز یا اس سے زائد وقت صرف کریں۔ یہ ایک ایسا احتجاج ہے جو لا محدود مدّت کے لیے ہوسکتا ہے جیسے ہی اس احتجاج کو روکنے کے لیے کریک ڈاؤن شروع ہوگا حکومت اس کے منفی اثرات سے پیدا ہونے والی تباہی کا جائزہ لے سکتی ہے اور اندازہ لگا سکتی ہے کہ اسی روز سے حکومت کے لیے خطرات شروع ہوں گے۔ اس وقت مکمل طور پر بدلے ہوئے حالات ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال سے خوش نہیں۔ ٹرمپ کی امریکی صدارتی کامیابی کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیوں کے واضح اشارے موجود ہیں۔ اعلیٰ سطح پر اس پر بھی غور کیا جارہا ہوگا پاکستان نے ٹوئٹر (ایکس) بند کردیا ہے جس کے سربراہ ایلون مسک نو منتخب صدر ایلون مسک کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں ۔یہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے اثرات سے حکومت کو لاحق خطرات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ عمران خان کا جیل میں رہنا ایک ایسا مسئلہ ہے جو حکمراں جماعتوں کو مزید کمزور کررہا ہے اور عمران خان گرفتا ر رہنے کی وجہ سے دنیا بھر میں مزید مقبول بھی ہو رہے ہیں اور زیر بحث رہتے ہیں ۔پاکستان میں بھی انہیں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگای ، ٹرانسپورٹ، صحت اور صفائی کی سہولیات میں کمی کے علاوہ کاروباری اور صنعتی مندی نے حالات کو اس نہج پر پہنچادیاکہ برسر اقتدار جماعتیں عوام میں غیر مقبول ہوگئیں ۔ایسے موقع پرحکومتی عہدیدار یہ بیان دیں کہ پاکستان کی معیشت تیزرفتار ترقّی کر رہی ہے تو شاید ہی کوئی اس پر یقین کرے گا۔ ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھاکہ بر سر اقتدار اشرفیہ نے ساڑھے چار ہزار ارب کی مراعات حاصل کی ہیں ۔گیارہ کروڑ لوگ خط غربت کے نیچے رہتے ہیں ۔دو کروڑ نو جوانوں گھر بیٹھ گئے ہیں یا کوئی کام نہیں کرتے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ کپاس کی پیداوار میں کمی ہوئی۔ گندم کی پیداوار بھی کم ہورہی ہے۔ شر ح نمومیں بھی ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ۔اس تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے بحران بہت گہراہے اب جب پی ٹی آئی نے احتجاج کا علان کیا ہے تو حکومت کے عہدیداروں کے دھمکی آمیز بیانات آرہے ہیں کہ لوگوں کے شناختی کارڈ منسوخ کر دیے جائیں گے اور طلبہ کی تعلیمی اسناد منسوخ کردی جائیں گی یعنی ایک نئے احتجاج کو جنم دینے کی بات کی جارہی ہے۔ ایسا ہی کا م جنرل ایوب خان نے کیا تھا۔ چند طالب علموں کو نکالنے پر پورے ملک کے طلبہ باہر آگئے تھے اور ایوب خان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ دراصل احتجاج روکنے کی دھمکیاں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کا ایک چیلنج ہے کہ حکومت کی ایک دھمکی ہوگی اور پی ٹی آئی کے کارکن بھاگ جائیں گے ۔پی ٹی آئی کے کارکن کس حدتک دھمکیوں کا اثر لیں گے۔ آئندہ چند روز میں مزید واضح ہوجائے گا۔ کیا فیصل واوڈا اور محسن نقوی کا یہ خیال درست ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکن اتنے بزدل ہیں کہ وہ دھمکی کے نتیجے میں پیچھے ہٹ جائیں گے۔ زمینی حقائق اس کے بر عکس نظر آتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی تیاریا ں زور و شور سے جاری ہیں ۔حکومتی بیانات سے اس احتجاج کو عالم گیر شہرت مل رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی اپنی جگہ کامیاب یاناکام جو بھی ہو، حکومت کے اقدامات بدلی ہوئی صورت حال سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان اقدامات کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کو ہورہاہے جس طرح کی بیان بازی عمران خان کی اہلیہ کے بارے میں کی گئی ہے ،اس کا بھی منفی اثر ہورہا ہے۔ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بلکہ تصادم کی راہ کی جانب گامزن ہے جس کااصل نقصان خودحکومت کو ہوگا۔ بہر حال آئندہ چند دن پاکستان کی سیاست کے لیے ہنگامہ خیز ہونگے۔ حکومت پریشان نظرآتی ہے کہ احتجاج کو روکتی ہے تو اس کو نقصان ہو سکتا ہے اور لوگوں کے اجتماع سے بھی ڈرتی ہے، الٹے سیدھے اقدامات سے حل تلاش کرنا قطعی ناممکن ہے۔