میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
روحانی معالج کے دعوے دار مالا علی کردستانی ، ایک شعبدہ باز نکلے!!

روحانی معالج کے دعوے دار مالا علی کردستانی ، ایک شعبدہ باز نکلے!!

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۱ نومبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

نجم انوار
۔۔۔۔۔

خود کو حکیم کہلانے والے مالا علی کے پاس طب اور مذہب کی کوئی اسناد نہیں، متعدد شکایتوں کے بعد اپنے آبائی علاقے کردستان سے بے دخل کیے گئے

٭متنازع معالج مالا علی کو ترکی میں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے، اُن کا دفتر مقفل کردیا گیا، سعودی عرب میں نابینا کو بینا کرنے کا ڈراما رچانے پر تنبیہ کی گئی

٭ مالا علی نے 2017 میں دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جنوں کا سایہ ہے اور وہ ان کا علاج بھی پیروں کے تلووں پر چھڑیاں مار کر کر سکتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں عراق سے تعلق رکھنے والی ایک مبینہ ’ ’روحانی‘‘ شخصیت ملا علی کردستانی آج کل ہر جگہ زیر بحث ہے۔وہ پاکستان میں ہیں، اور اُن کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ گونگے بہرے بچوں کا بھی ’’دَم‘‘ سے علاج کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِن دنوں توہم پرستی کی ایک عمومی فضا ہے۔ یوں بھی وطنِ عزیز میں اس طرح کے لوگ خوب پزیرائی پاتے ہیں۔ چنانچہ ملک کے کونے کونے سے لوگ اپنے بچوں کے علاج کے لیے اُن تک پہنچ رہے ہیں اور ہر ایک سے اُن تک پہنچنے کا طریقہ پوچھ رہے ہیں۔موجودہ حکومت میں جس طرح ان باتوں کا چلن عام ہوا ہے، ماضی میں پہلے کبھی نہیں تھا۔ چنانچہ حکومت میں شامل اہم رہنماؤں کی ملا علی کردستانی سے ملاقاتوںکی ویڈیوز اور تصاویر بھی خوب خوب شیئرز کی جارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور فردوس عاشق اعوان کی تصاویر اور ویڈیوز خصوصی طور پر زیر بحث رہیں۔
دوسری طرف ملا علی کردستانی کے حوالے سے مختلف کہانیاں بھی زیرِ گردش ہیں ۔ اُن کے خلاف مختلف الزامات بھی سامنے آرہے ہیں۔ ملاعلی کردستان فراڈ کے الزام میں سعودی عرب زیر حراست رہے ہیں۔ جبکہ عراق اور ترکی میں بھی اُن کے خلاف پولیس کارروائی کر چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ملا علی کردستانی کومسلسل چیلنجز بھی دیے جارہے ہیں کہ اگر وہ کسی مصدقہ گونگے ، بہرے کو ٹھیک کریں تو اُنہیں ایک کروڑروپے انعام دیے جائیں گے۔

ملا علی کردستانی کی پاکستان میں سرگرمیاں

ملا علی کردستانی پوش علاقوں میں اپنی سرگرمیاں رکھتے ہیں۔اُنہوں نے چند روز قبل پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا۔وہ اپنے دورۂ پاکستان میں 31؍ اکتوبر کو سب سے پہلے لاہور پہنچے۔ پھر اُنہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کیا۔جہاں اُنہوں نے متعدد مذہبی اور سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ملا علی کردستانی کو اپنے گھر مدعو کرچکے ہیں۔ جس کی باقاعدہ ویڈیو بھی جاری ہوئی ۔ملا علی کردستانی کی ایک تصویر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ بھی موجود ہے۔ جبکہ وہ ایک ویڈیو میں اپنے ہی جیسے مشکوک پسِ منظر رکھنے والے وزیراعظم عمران خان کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کے ساتھ بھی خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ملا علی کردستانی کو کچھ تصویروں میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ساتھ بھی دیکھا جاسکتا ہے، جنہیں گزشتہ تین برسوں میں متعدد مرتبہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں میں مختلف مناصب پر آزماکر رسواکن انداز سے نکال باہر کیا جاتا رہا ہے۔ملا علی کردستانی کے سوشل میڈیا کھاتے پرسینیٹر طلحہ محمود سمیت متعدد سیاسی شخصیات کے ساتھ تصاویر موجود ہیں۔ اس معاملے میں ایک دلچسپ پیٹرن خاصا توجہ طلب ہے۔ ملا علی کردستانی کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی ابتدائی ویڈیوز اور تصاویر میں وہ کچھ لوگوں کا علاج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جس میں تصاویر اور ویڈیوز سے ملنے والے تاثر کے مطابق وہ بینائی اور گویائی کی قوتوں سے محروم افراد کا علاج دم درود سے کررہے ہیں، جس میںوہ اپنے طریقے سے کچھ پڑھنے پڑھانے کے بعد ہی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اب آپ ٹھیک ہوگئے ہیں۔ مگر کیا واقعی گویائی اور بینائی سے محروم افراد معجزاتی طور پر شفایاب بھی ہوچکے ہیں، اس کی تصدیق کے لیے نہ تو وہ مریض موجود ہیں اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے پاس اس کی کوئی مصدقہ شہادت موجود ہے۔ یہ سب دعوے اگر ذرا بھی درست ہوتے تو پاکستانی میڈیا ہی نہیں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اس پر ایک ہنگامہ اٹھائے رکھتے۔ مگر ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ملا علی کردستانی کی دلچسپ طور پر اپنی ان ابتدائی ویڈیوز اور تصاویر کے بعد جن میں وہ ناقابل یقین علاج کے دعوے کرتے ہیں، بعدازاں اُن کے سوشل میڈیا کھاتوں پر صرف وہ تصاویر اور ویڈیوز ملتی ہیں جس میں وہ اہم حکومتی شخصیات سے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ گویا وہ اپنے دعوے کے مطابق ناقابل علاج مریضوں کے علاج سے زیادہ حکومتی شخصیات اور دیگر اشرافیہ کے اہم لوگوں سے ملتے جلتے نظر آتھے ہیں، اور اس میں خوش وخرم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف ذرائع ابلاغ پر طب کے ماہرین کی آراء شائع ہوچکی ہیں جو ملا علی کردستانی کے دعوؤں کی طبی تصدیق نہیں کرتے ۔

 

مالا علی کردستانی انگریزی کے ایک استاد تھے۔ مگر اچانک اُنہوں نے اپنا حلیہ تبدیل کیا۔ اور مذہبی رنگ روپ اختیار کرکے معذور لوگوں کا علاج شروع کردیا۔ ابتدا میں اُنہوں نے کلک میں ہی اپنا کلینک قائم کیا، جہاں لوگ بڑی تعداد میں اُن سے علاج کروانے کے لیے رجوع کرنے لگے۔ اس دوران میں اُن کے دعوؤں کی حقیقت بھی کھلنا شروع ہوگئی۔جس پر کرد حکام نے اُنہیں بے دخل کردیا۔جس کے بعد یہ سعودی عرب جا پہنچے۔

ملا علی کردستانی کا مشکوک پسِ منظر

مالا علی کردستانی کا تعلق عراقی کردستان کے ایک علاقے کلک سے ہے، جو اربیل شہر سے باہر واقع ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ قرآن اور سنت نبوی ﷺ کی رہنمائی سے معذور افراد کا علاج کرتے ہیں۔ وہ معذور افراد کے طور پر جو بیماریاں لیتے ہیں، عام طور پر یہ ناقابل علاج سمجھی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے دعوے کے مطابق اُنہوں نے نہ تو طب کی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی مذہب کی۔ وہ ابتداء میں انگریزی کے ایک استاد تھے۔ مگر اچانک اُنہوں نے اپنا حلیہ تبدیل کیا۔ اور مذہبی رنگ روپ اختیار کرکے معذور لوگوں کا علاج شروع کردیا۔ ابتدا میں اُنہوں نے کلک میں ہی اپنا کلینک قائم کیا، جہاں لوگ بڑی تعداد میں اُن سے علاج کروانے کے لیے رجوع کرنے لگے۔ اس دوران میں اُن کے دعوؤں کی حقیقت بھی کھلنا شروع ہوگئی۔اُن پر دونوں حلقوں سے اعتراضات ہوئے۔ مذہبی حلقوں نے اعتراض کیا کہ یہ مذہب کی کوئی باقاعدہ تعلیم نہیں رکھتے۔ا ور علاج کے حوالے سے جن طور طریقوں کو اختیار کرتے ہیں وہ ان کے دعوؤں یعنی قرآن وسنت کی رہنمائی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف اُن کے زیرعلاج رہنے والے مریضوں اور اُن کے اہلِ خانہ نے بھی اُن کے طریقوں سے فائدہ نہ پہنچنے پر شکایات شروع کیں جس کے بعد اُنہیں کردستانی حکم نے کردستان سے بے دخل کردیا تھا۔ جس کے بعد وہ سیدھے سعودی عرب چلے گئے۔ جہاں اُنہوں نے مقدس ترین شہر مدینہ منورہ میں ایک نابینا کی آنکھوں پرکچھ پڑھ کر اپنا لعاب لگایا۔ جس کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ اُس نابینا نے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ مگر اس دعوے کا پول بھی جلد ہی کھل گیا۔ سب سے پہلے یہ انکشاف ہو ا کہ جس نابینا کے علاج کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ درحقیقت نابینا ہی نہیں تھا۔ دوسرا اُس نابینا کا تعلق بھی سعودی عرب سے نہیں تھا۔ بلکہ وہ خود مالا علی کردستانی کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ گویا اُنہوںنے مدینہ منورہ میں بھی ڈرامے بازی سے کام لیا تھا۔ جس پر حکام نے فوراً ہی اُنہیں متنبہ کیا کہ وہ یہاں دیگر عبادت گزاروں کی طرح عمرہ کریں اور روضۂ رسول پر حاضری دیں اور ان شعبدہ بازیوں سے گریز کریں۔ جس کے بعد مالا علی کردستانی ترکی میں نمودار ہوئے تھے۔ جہاں اُنہوں نے استنبول کے ایک علاقے بشک میں باقاعدہ اپنا دفتر بھی قائم کرلیا تھا۔ مگر پولیس کو اُن کے طریقۂ علاج یعنی مریضوں کو چھڑی مارنے کی شکایات ملیں جس پر اُن کا دفتر مقفل کردیا گیا تھا۔ ترکی میںاُن سے اُن کی طب کے متعلق اسناد بھی طلب کی گئیں مگر وہ طب کی کسی روایتی یا غیر روایتی سند کو پیش نہیں کرسکے۔اُن پر الزامات تھے کہ اُنہوں نے علاج کے دوران بچوں تک کو تشدد کا نشانا بنایا۔ پولیس جب مالا علی کو تلاش کررہی تھی تب بھی وہ مختلف لوگوں سے گاڑیوں میں ملتے رہے۔

مالا علی کردستانی پاکستان میں کیسے آئے؟

ترکی میں ان مشکوک سرگرمیوں کے بعد اب یہ اچانک پاکستان میںنمودار ہوئے ہیں۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی کہ وہ ترکی سے پاکستان کیسے آگئے؟ کیا ترکی میں اب بھی وہ مطلوب ہے؟ اور مالاعلی کردستانی کے پاکستان میں اصل میزبان کون ہیں؟ مالا علی کردستانی زیادہ تر سینیٹر طلحہ محمود کے پرآسائش فارم ہاؤس میں دکھائی دیے ہیں۔اُن کی پاکستان میں زیادہ ترسرگرمیاں علاج معالجے سے زیادہ پوش علاقوں میں رہنے اور اشرافیہ سے ملنے کے حوالے سے ہیں۔ پاکستان میں وہ سوشل میڈیا پر اپنا نام طبیب مالا علی محمود کردی ظاہر کررہے ہیں۔
ملا علی کردستانی کے عجیب و غریب دعوے

مالا علی نے مقدس ترین شہر مدینہ منورہ میں ایک نابینا کی آنکھوں پرکچھ پڑھ کر اپنا لعاب لگایا۔ جس کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ اُس نابینا نے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ مگر اس دعوے کا پول بھی جلد ہی کھل گیا۔ سب سے پہلے یہ انکشاف ہو ا کہ جس نابینا کے علاج کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ درحقیقت نابینا ہی نہیں تھا۔ دوسرا اُس نابینا کا تعلق بھی سعودی عرب سے نہیں تھا۔ بلکہ وہ خود مالا علی کردستانی کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ گویا اُنہوںنے مدینہ منورہ میں بھی ڈرامے بازی سے کام لیا تھا۔

 

مالا علی کردستانی کے علاج اور طریقہ علاج کی کسی بھی طبی طریقے میں کوئی تائید نہیںملتی۔ وہ پیدائشی اندھوں اور بہروں کے علاج کا بھی دعویٰ کرتے ہیں، مگر آج تک ایسا کوئی بھی مریض وہ نہیں دکھا سکے جس کا اُنہوں نے علاج کیا ہو۔ وہ جنوں کے سایوں کے حوالے سے بھی بہت دعوے کرتے ہیں۔ مثلاً 2017 میں مالا کردستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جنوں کا سایہ ہے اور وہ ان کا علاج بھی پیروں کے تلووں پر چھڑیاں مار کر کر سکتے ہیں۔اسی طرح وہ ایک ویڈیو میں جن ایک مریض کے اندر جن کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کے خود پر حملہ آور ہونے کا دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہوںنے گنج پن کے لیے بھی ایک علاج کا دعویٰ کیا۔ مگر وہ خود بھی گنج پن کا شکار تھے۔ بعدازاں تحقیقات پر معلوم ہوا کہ اُن کے سر پر موجود بال بھی خود اُن کے طریقہ علاج کی وجہ سے نہیں بلکہ سر پر مصنوعی بال لگوانے کی وجہ سے ہیں۔ الغرض مالا علی کردستانی کے تمام دعوے شعبدے ہی ثابت ہوتے رہے ہیں۔پاکستان میں ایسے شعبدے سیاست سے لے کر معاشرت تک تمام شعبوں میں خوب خوب چلتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ مالا علی کردستانی کو اپنے عزائم کے لیے یہاں کی زمین زیادہ زرخیز ، یہاں کے سیاست دان زیادہ احمق اور یہاں کے عوام زیادہ آسان شکار لگے ہوں۔

 

 

 

۱۔ مالا علی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور سینیٹر طلحہ کے ساتھ گلدستہ لیتے ہوئے

۲۔ وزیراعظم عمران خان کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف

 

۳۔مالا علی ایک مریض کے ساتھ ، علاج کے نامعلوم طریقے آزماتے ہوئے

۴۔مالا علی کی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے گھر آمد پر ملاقات کی تصویر


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں