دھرنا ختم، پیسا ہضم۔۔۔! راؤ محمد شاہد اقبال
شیئر کریں
رہبرکمیٹی کی رہبری اور اپوزیشن کی 9 جماعتوں کو بیچ’’سیاسی منجدھار‘‘ میں ڈوبتاچھوڑ کر جس طرح کی عجلت و خجالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بغیر کچھ’’فیس سیونگ‘‘ حاصل کیے ،فقط 13 دنوں میں ہی اسلام آباد کے دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ۔مولانا کی اِس متوقع’’ سیاسی حرکت‘‘ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ موصوف،علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری تو کجا عمران خان کے دھرنے کے برابر بھی اسلام آباد میں احتجاجی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں بُری طرح سے ناکام رہے ہیں۔بلاشبہ مولانا کی اِس ناکامی سے دنیائے سیاست میں لفظ ’’دھرنے ‘‘ کوبھی بڑی بے توقیری حاصل ہوئی ہے ۔ یعنی لفظ ’’دھرنا ‘‘ جسے کبھی علامہ ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے’’شریف حکمرانوں ‘‘کے لیے خوف و دہشت کی علامت بنا کر بام ِ عروج پر پہنچا دیا تھا ،آج اُسی دھرنے پر مولانا کا ’’سیاسی سایہ‘‘ پڑنے کی وجہ سے طرح طرح کی تہمتیں کسیں جارہی ہیں اورتشنیع آمیز مزاحیہ لطائف گھڑے جارہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے ہاتھوں ہونے والی شرمناک رسوائی کے بعد جس طرح سے لفظ دھرنے نے اپنی عزت و توقیر گنوائی ہے ۔اُسے دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے کہ شاید اَب مستقبل قریب و بعید میں پاکستانی سیاست میں دھرنے کا کوئی نام لینے والا بھی نہیںرہے گا۔بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ لفظ’’ دھرنے ‘‘ کی ’’احتجاجی ناموس‘‘ کودو ٹکے کا کرنے کے بعد بھی مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عزائم کو طمانیت و سکون نہیں مل سکا اور اَب مولانا نے جس طرح سے پاکستان کی اہم ترین شاہراؤں پر دھرنے کا مذاق اُڑوانے کا اعلان کیا ہے ۔اُس کے بعد تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج کے بعد لفظ’’ دھرنے‘‘ کو کسی نصابی، کتابی اور سیاسی ڈکشنری میں بھی جگہ ملنے والی نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ نما دھرنا حکومت ِ وقت کے خلاف جتنا شور شرابا مچاتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے اسلام آباد کے داخلی راستہ کشمیر ہائی وے، پشاور موڑ پر آکر بیٹھا تھا ۔اُس سے کہیں زیادہ خاموشی کے ساتھ ٹھیک 13 دن بعد رات کی تاریکی میں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح ایسے غائب ہوا کہ مجال ہے جو کسی فرد بشر کو دھرنے کے رینگ جانے کی کانوں کان خبر ہوسکی ہو۔ یعنی جس دھرنے کو اسلام آباد تک پہنچتے ،پہنچتے تین دن لگ گئے تھے ،اُسی دھرنے کو تتر بتر ہوتے ہوئے تین گھنٹے بھی نہیں لگے ۔چشمِ فلک نے 15 لاکھ لوگوں کو اتنی سرعت و تیزرفتاری کے ساتھ کسی جگہ سے اپنے اپنے گھروں کی جانب اپنا سامان بغل میں دبا کر بھاگتے ہوئے پہلی بار دیکھا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہماری گناہ گار آنکھوں نے خود ملاحظہ کیا ہے کہ دھرنے سے جانے والے سب لوگ اتنے زیادہ خوش و خرم تھے کہ جیسے اُن سب کی جیبوں میںفرداً فرداً، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنا استعفا لکھ کر خود اپنے ہاتھوں سے ڈالا ہو ،اِس تاکید کے ساتھ کہ ’’اَب بس اِسے اپنے گھر جاکر ہی کھول کر تفصیل سے پڑھنا اور استعفے کو منظور کرکے مجھے شرفِ باریابی بخش دینا‘‘ ۔ افسوس صد افسوس! کہ وزیراعظم کا استعفا لینے کے لیے آنے والے ،تسلی کے دو جھوٹے وعدے بھی لیے بغیر ہی خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔
اسلام آباد دھرنے کی یہ ناکامی کم وبیش ایک برس کے مختصر سے عرصہ کے دوران مولانا فضل الرحمن کو حاصل ہونے والی مسلسل چھٹی بڑی سیاسی ناکامی ہے ۔مولانا کو پہلی تاریخ ساز سیاسی ناکامی اُس وقت حاصل ہوئی تھی جب انہیں 2018 کے انتخابات کے دوران اپنے آبائی حلقہ سے ایک نوآموز کھلاڑی اُمیدوار کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔اِس انتخابی شکست کے بعد فوری طور پر جس دوسری سیاسی ناکامی کا شکار مولانا کو اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں پہلی دفعہ ہونا پڑا ،وہ کشمیر کمیٹی سے معزولی یعنی کرسی ِ اقتدار سے کلیتاً بے دخلی کا پروانہ تھا ۔اس کے علاوہ گزشتہ تین دہائیوں سے پارلیمنٹ لاجز میں قائم ایک بڑے سے حکومتی گھرکا قبضہ بھی جس منفرد انداز میں تحریک انصاف کی حکومت نے مولانا سے چھڑوایا،اُس سے حاصل والی ہزیمت مولانا کی تیسری سیاسی ناکامی کا سبب بنی تھی۔جبکہ مولانا فضل الرحمن کی چوتھی سیاسی ناکامی 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے اپوزیشن کو قائل نہ کرسکنا تھا۔ مولانا کی پانچویں بڑی ناکامی سینٹ میں اپوزیشن ارکان کی واضح ترین اکثریت ہونے کے باوجود بھی سینٹ کے چیئرمین جناب صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی متفقہ طورپر پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانے میں بُری طرح سے ناکام ہوجانا تھا ۔ اگر مولانا فضل الرحمن کی ایک سالہ پے درپے سیاسی شکستوں کا جائزہ لیا جائے تو بغیر کسی شک و شبہ کے اسلام آباد دھرنا کو اُن کی اَب تک کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی قرار دیا جاسکتاہے ۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنی دیگر سیاسی ناکامیوں کی طرح اسلام آباد دھرنے کے ملبہ سے بھی ایک عظیم الشان احمقوں کی جنت برآمد کرنے کے دعویدار ہیں اورآزادی مارچ نما دھرنے کی حالیہ ناکامی کو اپنی سب سے بڑی سیاسی فتح کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔مولانا اپنے دعویٰ کے حق میں دلیل یہ دے رہے ہیں کہ اُن کے دھرنے کے باعث عمران خان کی حکومت کی دیواریں ہل گئی ہیں ۔جبکہ پوری پاکستانی قوم انگشتِ بدنداں ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی وہ کونسی دیوار ہے جسے مولانا کے دھرنے نے ہلا کر رکھ دیا ہے؟ ۔ ہاں !البتہ ،ایک بات تو ضرور سب کو صاف صاف سمجھ آرہی ہے کہ حکومتِ وقت کی ’’ تصادم نہ کرنے کی ‘‘ دوراندیشانہ حکمت عملی نے ضرور دھرنے کے مردہ کو اسلام آباد سے ہلا کر گلی گلی خجل و خوار ہونے کے لیے چھوڑ دیا ۔ آخری خبریں آنے تک مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا یہ مردہ بھی گلی کے ایک تاریک نکڑ پر انتہائی خاموشی سے دفنادیاگیاہے ۔اِس مرگ پر لوگ کچھ بھی کہتے رہیں ۔۔۔ بہر حال ہم دھرنے کے جملہ لواحقین کے ساتھ تعزیت کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ جیسی المناک موت اِس دھرنے کے حصہ میں آئی ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی بُری موت سے پاکستان کی ہر ’’سیاسی تحریک ‘‘ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔