میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
”بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں“

”بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں“

منتظم
پیر, ۲۱ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mohammad-deen-jauhar

محمد دین جوہر
بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت معنی خیز ہے، جس کا اشارہ ہر سمت پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایک غالب رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قول سے بظاہر تو یہی مراد ہے کہ لوگ مذہبی ہو جاتے ہیں، لیکن اچھے نہیں بنتے۔ یہاں توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ امر کسی گہرے بحران کا غماز ہے اور غور طلب بھی ہے۔ لیکن اصلاً یہ قول ایک گہرے عدم اطمینان کا اظہار ہے کہ مذہبی ہونے میں اچھا بننا شامل ہے، لیکن آجکل ایسا نہیں ہوتا، یعنی مذہبی آدمی ہی اچھا آدمی ہوتا ہے، اور اگر وہ اچھا نہیں ہے تو مذہبی ہونے کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی۔
اکثر، اہل نظر کچھ اہم سوالات کی طرف زمام کشی کے لیے اس طرح کے ارشادات فرماتے ہیں۔ آج ہمارے اہم ترین سوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ دیندار اور دینداری سے کیا مراد ہے؟ یہ سوال براہ راست ہمارے تصور انسان سے جڑا ہوا ہے۔ ہم عصر دنیا میں طاقت اور ترقی کے دباو¿ اور ہماری نکبت تامہ میں جاری تمام بحثوں، علمی کاوشوں اور فکری دراز گوئیوں سے یہ بنیادی سوال غائب ہے۔ اگر مذہبی علم اور تعلیمات کو سرسری بھی دیکھ لیں تو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بحران کس قدر شدید ہے۔ ہم کردار میں، سماجی رویوں میں، معاملات میں، تعلقات میں، تعلیم اور علم میں اپنے مذہبی تصور انسان کو سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں۔
اس پس منظر میں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک دفعہ مقامی تبلیغی مرکز کے امیر کے ہمراہ ایک مصری جماعت ناچیز سے ملنے کے لیے تشریف لائی۔ ہمارے ایک دوست ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ عرب شیخ نے اپنے وعظ میں فرمایا کہ دنیا میں جو چیز بھی ہے، کسی خاص مقصد کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ اس سے پھل اٹھایا جائے، فیکٹری اس لئے نصب کی جاتی ہے کہ مصنوعات بنائی جائیں، سکول اس لیے بنتے ہیں کہ بچے تعلیم پائیں، علیٰ ہذا القیاس۔ انہوں نے کہا اگر کوئی پوچھے کہ دنیا میں اسلام کا کیا مقصد ہے؟ تو ہم کہیں گے اسلام کا مقصد بہترین معاشرت پیدا کرنا ہے، ایک ایسی معاشرت جس کی بنیاد دینداری ہو۔ ان کی بات بہت اعلیٰ تھی، لیکن یہ سوال باقی رہا کہ کہ دینداری سے کیا مراد ہے؟
اس قول میں ”اچھا آدمی“ بننا ایک اخلاقی تصور ہے، مذہبی تصور نہیں ہے۔ جدید علم اور کلچر کا بنیادی دعویٰ ہی یہ ہے کہ ایک اچھا آدمی بننے کے لیے مذہب غیر ضروری ہے۔ اس دعوے کی تصدیق میں مغرب نے مذہب کے بغیر ”اچھا آدمی“ بنا کے دکھا دیا ہے، جو ہے تو کافر لیکن اتنا اچھا ہے کہ جو وہاں سے پھر آتا ہے دن رات اسی کے گن گاتا ہے اور لگتا ہے کہ زیارتوں سے لوٹا ہے۔ وہ آدمی قانون کی پاسداری کرتا ہے، قطار اچھی بناتا ہے، بہت مہذب ہے، سلیقے سے پیش آتا ہے، اپنے کام سے کام رکھتا ہے، ڈیوٹی دیانتداری سے ادا کرتا ہے، محنتی بہت ہے، معاملات میں نہایت دیانتدار ہے، دوسروں کا خیال رکھتا ہے، ”مذہبی“ آزادی کا قائل ہے، تعلیم و علم کا شیدا ہے، لذت میں آزاد ہے، تفریحات کا دلدادہ ہے، علیٰ ہذا القیاس۔ وہاں ”اچھا آدمی“ اتنی کثرت سے ہے کہ ایک اچھا معاشرہ بن گیا ہے اور ہم میں سے اکثر وہیں جانا رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اچھا ہے اور ذہن کہتا ہے کہ کافر ہے۔ ہمارا یہ دبدھا تو ہے، لیکن اس کا حل سمجھ نہیں آتا۔ لیکن بھلی بری کوشش کر کے ہم نے اس کا حل بھی نکالا ہوا ہے، اور وہ ہے کہ وہاں اسلام ہے مسلمان نہیں ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل مغرب نے ہمیں بتائے بغیر اور پوچھے بغیر اچھے ہونے کا سارا طریقہ اسلام سے لیا ہے لیکن کلمہ نہیں پڑھا ہے۔ ہمارا ایمانی موقف ہے کہ اچھے ہونے کا طریقہ صرف اسلام میں دستیاب ہے کہیں اور نہیں ہے، لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ صرف ا±دھر ہی کیوں ظاہر ہوتا ہے۔ ہماری تبلیغی جماعت کا کہنا ہے کہ بس اب کلمے کی کسر ہے اور اسلام کی روشنی میں باقی کام تیار ہے۔ ہمارے ہاں کسی بھی حل کا واقعی حل ہونا شرط نہیں ہے۔ اس کا اتنا سادہ ہونا ضروری ہے کہ ہماری سمجھ میں آ جائے بھلے وہ لغو ہی کیوں نہ ہو۔
گزارش ہے کہ ہمارے اشکالات اور ان کے لغو جوابات جو اب ہمارا کل علمی سرمایہ ہیں، صرف اس لیے ہیں کہ دین کی بنیاد پر بننے والا ہمارا تصور انسان فنا ہو گیا ہے۔ ہمارے بحران کی بڑی وجہ یہ ہے کہ علم اور سیاست یعنی public sphere سے مذہبی تصورِ انسان غائب ہونے کے بعد اب زندگی کے ہر شعبے سے کوچ میں ہے۔ دینداری ہمارا پورا تصور انسان ہے، اور آج اگر اسلام باقی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ تصورِ انسان عام سماجی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین تہذیبی سطح تک نتیجہ خیز رہا ہے۔ آج ہم اس کا دفاع کرنے کا حوصلہ بھی یہیں سے پاتے ہیں۔
دینداری ایک فرد کی زندگی کے سارے پہلو¿وں کو محیط ہے۔ دینداری کی سادہ تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے، اس اردے سے پھوٹنے والے عمل، نفسی احوال اور اعمال، طبیعت سے جنم لینے والے رویوں، عقل اور اس عقل سے پیدا ہونے والی فکر میں دینی مراد پر ڈھل چکا ہو۔ گزارش ہے کہ دینداری چار چیزوں کا تقاضا کرتی ہے: (۱) مہذب ہونا، (۲) اخلاقی اعمال اور رویوں کا حامل ہونا، (۳) عبادات میں مستعد اور مستقل ہونا، (۴) نیت میں اخلاص پر قائم ہونا۔
مہذب اور باسلیقہ ہونا کوئی اخلاقی عمل نہیں ہے بلکہ کلچر اور معاشرے کا جمالیاتی پہلو ہے۔ اس میں دو چیزیں اہم ترین ہیں: گفتگو میں نرم خو اور نرم رو ہونا اور دسترخوان کا سیلقہ ہونا۔ یہ دونوں چیزیں طبیعت کی کشادگی اور فیاضی کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں اور جو خوداعتمادی کی اساس بھی ہیں اور معاشرے میں جمال کا منص? شہود بھی۔ دینداری کے متداول تصورات میں خوش سلیقگی، مہذب پن اور زندگی کے جمالیاتی پہلوو¿ں کی گنجائش کس قدر ہے، وہ ہم سب پر روشن ہے۔
دوسرے درجے پر وہ رویے اور افعال ہیں جو خالصتاً اخلاقی ہیں اور جنہیں روایتی طور پر ترک رزائل اور کسب فضائل کے زمرے میں زیر بحث لایا جاتا تھا۔ ان سے اصلاً اخلاقی خودی کی حفاظت مراد ہے۔ اخلاقی اقدار بنیادی طور پر نفسی احوال ہیں جو افعال، اعمال اور رویوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر انسان مورل سیلف یا اخلاقی خودی سے محروم ہو جائے تو اس کے انسان ہونے کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ ہماری دینداری کے مظاہر سے اور اس کے متداول تصورات سے خوش سلیقگی اور اخلاقی خودی کے پہلو علماً اور عملاً غائب ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں تہذیب و سلیقہ شعاری کے ساتھ ساتھ اخلاقی خودی اور مذہبی عبادات میں التباس یا تضاد عام ہے۔ اب تو تقوے کے ہیئتی مفاہیم اور عباداتی میکانکیت کے غلبے میں تہذیب اور تہذیبِ اخلاق کی کوئی جگہ ہی باقی نہیں رہی۔ سلیقہ شعاری اور مکارم الاخلاق کو نظرانداز کر کے یا انہیں غیرمذہبی قرار دے کر اچھا بننے کا ہر تصور محال ہے۔ اللہ کی نظر میں وہ اچھا ہے جو زاہد و عابد ہو، اور لوگوں کی نظر میں وہ اچھا ہے جو حسن اخلاق رکھتا ہو۔ یہ باہم متصادم نہیں اور مذہبی ہونے میں دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اخلاقی اعمال دنیا میں نتیجہ خیز ہیں اور عباداتی اعمال دنیا میں نتیجہ خیز نہیں ہیں۔ مکارم الاخلاق اچھا انسان بننے کے لیے ضروری ہیں اور مذہبی عبادات اچھا بندہ یا عبد بننے کے لیے ضروری ہیں۔ آج مذہب جدید سیکولر توحید اور صرف عبادات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جو داعشی حیوان کی پیدائش کا اصل سانچہ ہے۔
تیسرا درجہ عبادات کا ہے جو معلوم و معروف ہیں۔ عبد ہونے کی کوئی شرط ان کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ سلیقہ شعاری اور مکارم الاخلاق انسانوں کے مابین تعلق کا نقشہ ہے اور عبادات اللہ اور بندے کے درمیان تعلق کا نقشہ ہے۔ آدمی کے اچھے اخلاق ذاتی ایثار اور دوسروں کی خیرخواہی کے لیے ہوتے ہیں، جبکہ آدمی کی عبادات صرف اسی کے لیے فائدہ مند اور دوسروں کے لیے غیر اہم ہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ صرف عبادات پر کاربند ہو کر آدمی اچھا بن جاتا ہے، تو یہ محض خوش فہمی ہی نہیں، خام خیالی بھی ہے۔
دینداری کی گفتگو میں چوتھا درجہ نیت کا ہے۔ نیت سلیقہ پن، مکارم الاخلاق اور عبادات کی بنیاد بھی ہے اور ان کا ست بھی۔ ایمان کا انفس میں استحضار نیت ہے، اور آفاق میں اظہار علم ہے۔ نیت انسانی افعال، اعمال اور رویوں کو بامعنی رکھتی ہے اور انسان کے وجودی مرکز میں حضور کو حال بنا دیتی ہے۔ علم تہذیب کو بامعنی بناتا ہے اور مذہبی فکر اپنی خاص ترکیب میں حضور حق کو معاشرے اور تاریخ میں زندہ رکھتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہماری دینداری ایمان، نیت اور علم کی انفسی اور آفاقی نسبتوں اور تلازمات سے قطعی تہی دامن ہے تو ہے ہی، بے خبر بھی ہے۔ آج دینداری کے آگے مذہبی فکر کی بین بجانا تو دور کی بات ہے، فکر فی نفسہ دینداری کے خلاف قرار دی جا چکی ہے۔ آج ہماری دینداری مذہبی عبادات تک محدود ہو گئی ہے، اور مہذب پن، مکارم الاخلاق اور علم سے منقطع ہو چکی ہے، اور دینداری کا پورا اور مکمل تصور وضاحت اور صراحت کے ساتھ آشکار نہیں رہا۔ اللہ ہمیں اپنے دین سے سچا تعلق اور اخلاص سے عمل نصیب فرمائے۔ آمین۔
قول احمد جاوید …. تشریح دین محمد جوہر
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں