غیرت کا جنازہ
شیئر کریں
ڈاکٹر اسمٰعیل بدایونی
سگار کا ایک گہرا کش لیا اور چھت پر لٹکے قیمتی فانوس کو دیکھتے ہو ئے کہنے لگے ”تو بر خوردار!آپ کو اس بات پر اعتراض ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں میٹرک کلاس میں یہ واہیات سوال کیوں پوچھے گئے؟ “
”عالی صاحب! اسلام کے احکامات کا تو عرصہ دراز ہوا مذاق اڑایا جا رہاہے لیکن اب تو انسانیت کی تذلیل کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔سب سے پہلے ٹی وی آیا۔۔۔۔پھر سروں پرجو دوپٹے تھے وہدوپٹے گلے میں آگئے۔۔۔۔پھر گلوں سے اتر گئے اب کپڑے سکڑتے سکڑتے اترنے کے قریب جا پہنچے ہیں۔۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ ۔۔۔اس کا تو کوئی تصور خواب میں بھی نہیں کیا جا سکتا۔“
”بر خوردار!مسئلہ یہ ہے کہ تم بہت بھولے ہو۔۔۔۔۔تمہیں گزشتہ ساٹھ سالوں میں اپنے حکمراں سمجھ نہیں آئے ، تو سات سمندر پار تمہارے دشمن تمہیں کیوں کر دکھائی دے سکتے ہیں؟
سونے پر سہاگہ تمہیں اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنی طاقت کا درست اندازہ نہیں ہے۔۔۔۔ تمہیں جنگ لڑنے کا ڈھب نہیں آتا۔۔۔میں بتاتا ہوں تمہیں آتا کیا ہے۔
ایک بڑا جلسہ زبردست قسم کا جوش ولولہ سے بھر پور جلسہ ۔۔۔۔۔کسی خاص موقع پر کوئی احتجاج ،اس میں دھواں دھار تقریریں۔۔۔۔اور کچھ میڈیا کو دینے کے لیے فوٹو سیشن۔۔۔۔بس دین ِ اسلام کا حق ادا کر دیا، تمام توانائیاں یہاں ضائع کر دیں ،منصوبہ بندی سے عاری۔۔۔۔جذبات سے بھر پور اورجذبہ سے خالی حکمتِ عملی۔۔۔۔نتیجہ، عام آدمی میں مایوسی کی پرورش۔“
تو پھر آپ بتائیے! کیا کریں ۔مجھ سے برداشت نہیں ہو سکا۔
یہ ہی تمہارا مسئلہ ہے ،تم لوگوں میں برداشت نہیں اور تمہارا مخالف اتنا ہی ٹھنڈے مزاج کا حامل ہے ۔ اس نے برسوں پہلے تمہارے نظام تعلیم پر شب خون مارا تھا اور اس وقت کے مفکرین نے تشویش کے عالم میں کہا تھا :
”خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم یہ سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف“
ایک اور جگہ یوں کہتے ہیں :
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر
انہوں نے تمہاری تباہی کا منصوبہ برسوں پہلے تیار کیا تھا۔۔۔۔۔اب تووہ فصل کاٹنے والے ہیں۔۔۔۔اور کیا تمہارے پاس آئندہ چھ ماہ کی بھی کوئی منصوبہ بندی ہے؟
تم نے پڑھی ہو گی اُندلس کی تاریخ۔۔۔۔تم محسوس کر سکتے ہو آج برسہا برس گزر جانے کے با وجود اس سوز اور اس کرب کو ۔۔۔۔تمہیں معلوم ہے ناں۔۔ کیا کیا تھا اہلِ کلیسا نے مسلمانوں کے ساتھ۔ جبر و تشدد کی بنیاد پر ان کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کیا گیا۔
مسلمانوں کو جلا وطن کر دیا گیا۔۔۔۔لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔۔۔۔۔اور سینکڑوں کو جبری عیسائی بنا دیا گیا۔۔۔۔۔ان کے بچے ان سے چھین لیے گئے اور ان کو عیسائی بنا دیا گیا۔۔۔۔۔قرآن مجید جلا دئیے گئے۔۔۔ مسلمانوں کوجو قرآن یاد تھا وہ رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر روتے روتے پڑھا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے اگر ان کا یہ پڑھنا کسی عیسائی کی نظر میں آگیا تو اس پر ایسا تشدد کیا جائے گا کہ آج بھی ہم اس کا تصور کر لیں تو روح کانپ اٹھے ۔۔۔۔مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ۔
تم کیا سمجھتے ہو جب ہر چیز نئی آگئی۔۔۔ جنگوں کے انداز تبدیل ہو گئے۔۔۔۔سفر کے طور طریقے بدل گئے ہر چیز تبدیل ہوتی چلی گئی۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں سمجھتے کہ اس دور میں تمہارا دشمن اپنی چال تبدیل کرے گا؟
شہری ہو، دیہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
یہ کام کوئی غلطی سے نہیں ہوا ہے۔۔ ۔منصوبہ بندی کے تحت ہوا،اب یہ تمہیں مسلمان سے عیسائی نہیں بنانا چاہتے یہ تو اسلام دشمنی میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ تمہیں مسلمان ہی نہیں رہنے دینا چاہتے، تم زبان سے خود کومسلمان کہتے رہو بس۔۔۔۔۔لیکن تم مسلمان نہیں ہو گے ۔
تم نے اسی ملک خداداد پاکستان میں یہ آوازیں بھی سنی ناں!!!۔۔کہ شراب جائز قرار دیجیے ۔اور تو اور صدرِ مملکت نے کیا کہا کہ ”علماءسود کو جائز کرنے کی کوئی صورت نکالیں“۔۔۔۔۔۔۔ اب جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ اتنا کچرا ہے کہ مت پوچھیے اور آنے والا وقت اس بھی زیادہ ہولناک ہے۔اگر انگریزوں کے وفادار نیچری نے مستقبل کی نگاہ سے اس پیپر کو پڑھا ہوتا تو وہ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کی کبھی حمایت نہیں کرتا۔
یہ کون لوگ ہیں جو بہن کے اور ماں کے خدو خال کو بیان کرنا تعلیم سمجھتے ہیں ۔اگر تم کو کوئی اس قسم کا مادرپدر آزاد قسم کا آوارہ دانشور ٹکرا جائے تو کہنا کہ تم بیان کرو ناں اپنی ماں اور بہن کے خدو خال ۔۔میں نے آج ہی ایک ویب سائٹ پر ایک بے وقوف اور احمق لبرل کا اس کے حق میں مضمون دیکھا توسر پیٹ لیا ،لوگوں نے کمنٹس کیے ہوئے تھے کہ ”بھئی پھر اپنی بہن کے خدو خال بھی بیان کر و نا!!!!!!!!“
یہ اس ملک کو روشن خیالی اور لبرل ازم کے نام پر فحاشی کے فری پورٹ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
یاد رکھنا!
یہ اس ملک کو اسپین نہیں بنائیں گے بلکہ اقبال کی نشاندہی کرتا تعلیم کے تیزاب سے تمہاری غیرت کا جنازہ نکالیں گے ۔یہ تمہارا حال بہت برا کریں گے۔۔۔تمہیں شرم آئے گی خود کو مسلمان کہتے ہوئے ۔“
عالی صاحب! مسئلے کا حل بھی تو بتائیے!میں نے اپنے آنسو¶ں کو ضبط کرتے ہوئے کہا ۔
”اپنا نظام تعلیم لے آ¶ جو تمہاری قومی اور اسلامی امنگوں کے عین مطابق ہو جہاں دین و دنیا کی تعلیم دونوں موجود ہوں ،جہاں دین اسلام کی حمیت و غیرت کا درس دیا جاتا ہو۔۔۔۔۔۔پھر کہوں گا مطالعہ کو فروغ دو ۔
دینی غیرت و حمیت پر سودا نہ کرو۔۔۔۔۔جو لبرل ہونے کا دعویٰ کررہا ہے اس کو مسترد کر دو۔ افسوس! صد افسوس! ادھر دعویٰ ہوتا ہے قوم لبرل ہونے کا فیصلہ کر چکی اور تمہارے علماءپہلو میں چپک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مذمتی بیان تک جا رہی نہیں ہو تا۔۔۔۔۔ان علماءمیں بھی اور عوام میں بھی غیرت و حمیت پیدا کرو۔
لیکن تم سے یہ نہیں ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے آپ میں مست رہو گے بالکل ویسے ہی جیسے اندلس کی تباہی سے پہلے وہاں کے علماءو دانشور صرف فتو¶وں کی زبان میں بات کرتے تھے۔۔۔۔ تاریخ کا حصہ ہے ، وہ استفتاءمسجد کی دیوار پر لگاتے اور پھر جو فتویٰ آتا اسے بھی مسجد کی دیوار پر چسپاں کرتے تھے ۔وہ اصلاح کے بجائے فساد کے قائل تھے ، تم بھی استفتاءاور فتویٰ فیس بک، واٹس اپ اور سوشل میڈیا کی دیواروں پر چسپاں کرتے ہو ،انجام تمہارا بھی بہت دردناک ہو گا مگر اس دفعہ یاد رکھنا اہلیانِ پاکستان کو اسپین کے مسلمانوں سے بد تر سزا دی جائے گی۔
٭٭