جنگی صورت حال اور ایندھن کا ذخیرہ اسٹریٹجک سطح سے نیچے
شیئر کریں
ایچ اے نقوی
اس وقت جبکہ بھارت کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے ،نریندرا مودی کی حکومت نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی وقت جنگ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ، کراچی کی بندرگاہ پر رش اور پائپ لائن میں رکاوٹوں کی وجہ سے ملک میں تیل کی سپلائی میں خلل پیدا ہونے کی اطلاعات یقیناً تشویشناک ہیں،جبکہ تیل کا ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات اور وافر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آئل کمپنیاں معیاری طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں دو اہم پیٹرولیم مصنوعات موٹر پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی سطح اس اسٹریٹجک سطح سے بھی نیچے چلی گئی ہے جس کا برقرار رکھنا عام حالات میں بھی لازمی ہوتاہے۔
تیل کمپنیوں کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع نے متعدد بار متعلقہ حلقوں کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ اسٹریٹجک ذخیرے کے لیے سپلائی میں اضافہ کیا جائے اور حکومت اور آئل انڈسٹری دونوں ہی وزارت دفاع سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ اضافی ذخیرہ خانوں کی تعمیر کے لیے درخواستوں کی کلیئرنس کی رفتار تیز کرے لیکن وزارت دفاع نے اب تک ان درخواستوں پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے اب صورت حال قابو سے باہر ہوتی نظر آرہی ہے۔ذرائع کے مطابق پاکستان میں پیٹرولیم مارکیٹنگ کے شعبے میں کام کرنے والی6 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں (او ایم سیز) ملک کے مختلف علاقوں میں اسٹوریج ڈپوز بنانا چاہتی ہیںاور ان کی مجموعی طور پر 51 درخواستیں وزارت دفاع کے پاس زیر التوا ہیں۔سابق سیکریٹری پیٹرولیم کا کہناہے کہ ’اگر تمام این او سیز آج ہی جاری کردیے جائیں تو بھی ذخیرے کی استعداد میں کمی کو پورا کرنے میں ایک سال کا عرصہ لگے گا، انرجی سیکیورٹی کے تناظر میں یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے‘۔ایک حکومتی عہدے دار نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت پیٹرولیم وزارت دفاع سے درخواست کرتی رہی ہے کہ مارکیٹنگ کمپنیوں کو نئے ذخیرہ خانے تعمیر کرنے کے لیے این او سی کے اجراکے حوالے سے ایک وقتی میکینزم تیار کرلیا جائے۔ لیکن وزارت پیٹرولیم کی اس درخواست پر وزارت دفاع نے اب تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
سرکاری حلقے پیڑول کے ذخیرے کے اسٹریٹجک سطح سے نیچے آجانے کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار طلب میں اضافے، ذخیرے کی گنجائش میں کمی اور پورٹ پر رش کو قرار دیتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل، آئل ریفائنریز اور او ایم سیز کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی ماہانہ پراڈکٹ ریویو میٹنگ میں اٹھایا جاتا رہا ہے لیکن اس صورت حال کے سدباب کے لےے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔
حکومتی عہدے دار وںکا کہنا ہے کہ ’ملک بھر میں کہیں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قلت نہیں تاہم اس کے ساتھ ہی وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کم سے کم 20 دن کا ذخیرہ رکھنے کے لازمی شرط سے کم ہے‘۔سرکاری عہدیداروں کے مطابق فی الوقت ملک کو’پیٹرول کی 2 لاکھ 57 ہزار ٹن جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی3 لاکھ 15 ہزار ٹن قلت کا سامنا ہے‘۔حکومتی عہدے دار کے مطابق وزارت پیٹرولیم کے ڈائریکٹر جنرل آئل او ایم سیز سے درخواست کررہے تھے کہ وہ اپنے انوینٹری لیول میں اضافہ کریں جبکہ پاک عرب ریفائنری (پارکو) کی ذیلی کمپنی پاک عرب پائپ لائن کمپنی (پیپکو) مسلسل یہ شکایتیں کررہی ہیں کہ تیل کا ذخیرہ کرنے کے لےے مناسب گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے او ایم سیز پائپ لائنز کا غلط استعمال کررہی ہیں اور پائپ میں ہی تیل ذخیرہ کررہی ہیں۔
تیل کی مارکیٹنگ سے وابستہ پیپکو اور پارکو نے شکایت کی ہے کہ ’وائٹ آئل پائپ لائن (ڈبلیو او پی) سسٹم چوک تھا اور او ایم سیز اسے بطور اسٹوریج سسٹم استعمال کررہی تھیں، ڈبلیو او پی سسٹم ترسیلی نظام ہے نہ کہ اسٹوریج سسٹم‘۔اس حوالے سے پیپکو نے وضاحت کی ہے کہ متوقع فروخت سے کہیں زیادہ مقدار میں تیل پائپ لائن میں داخل کردیا گیا اور او ایم سی کی جانب سے انہیں نکالا نہیں گیا۔جس کے نتیجے میں حکام کے لیے مزید آنے والے بحری جہازوں کو ہموار طریقے سے لنگر انداز کرنے میں مشکلات پیش آنے لگیں۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل ریفائنریز اور او ایم سیز کی جانب سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ پائپ لائن سسٹم میں موجود اسٹاک کا ریگولر ڈیٹا فراہم کیا جائے تاکہ رکن کمپنیوں کو کہا جاسکے کہ وہ اپنی مصنوعات کو جلد از جلد نکال لیں۔حکام کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر جہازوں کے رش اور پیٹرول ذخیرہ کرنے کے لےے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پیٹرول سے بھرے کم سے کم تین جہازوں کو ستمبر 24 ستمبر سے 29 ستمبر تک شیڈول کے مطابق جگہ نہیں مل سکی۔اس کے علاوہ ، 7 جہاز جن میں ہائی اسپیڈ ڈیزل تھا ، تبخیر اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہونے والے نقصان کی وجہ سے لنگر انداز نہ ہوسکے۔بندرگاہ کے اصول کے مطابق جب کوئی جہاز بندرگاہ پرآتا ہے تو اس کے مالک کو ایک نوٹس دینا پڑتا ہے جس میں دو تاریخیں درج ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک تاریخ جہاز کے لوڈنگ پورٹ پر آنے اور دوسری لنگر اندازی کے لیے تیار ہونے کی ہوتی ہے۔لیکن اکتوبر کے مہینے میں 12 سے 15 جہاز پورٹ پر بے انتہا رش کی وجہ سے لنگر انداز ہونے کے لیے انتظار کررہے تھے۔
صورت حال کے اس پس منظر میں آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر الیاس فاضل کا کہنا ہے کہ پورٹ اور پائپ لائن میں رکاوٹیں ’غیر معمولی نوعیت‘ کی نہیں ، یہ معمول کے واقعات ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ پورٹ پر بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی تاریخیں آگے پیچھے ہوسکتی ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وائٹ آئل پائپ لائن سے ترسیل کے لیے معیاری طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔اور جب ڈیزل سے بھرا کوئی جہازفوجی آئل ٹرمینل کمپنی میں لنگر انداز کیاگیا تواس سے قبل ڈبلیو او پی کی انتظامیہ سے اس حوالے مشاورت کی گئی تھی اور جگہ کی کمی کی وجہ سے پائپ لائن میں ڈیزل کے دخول میں ایک یا دو دن کی تاخیر ہوگئی تھی۔اسٹریٹجک سطح سے کم ایندھن کے ذخائر کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل دونوں کی طلب عروج پر ہے۔انہوں نے کہا کہ ذخیرے کی گنجائش میں اضافہ کرنا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی ذمہ داری ہے تاہم پاکستان اسٹیٹ آئل اور ہیسکول نے حال ہی میں اپنی ذخیرے کی گنجائش میں اضافہ کیا ہے۔
٭٭