میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان پر پابندیوں کافیصلہ بیک فائر ثابت ہوسکتا ہے‘ماہرین کا امریکی کانگریس کو انتباہ

پاکستان پر پابندیوں کافیصلہ بیک فائر ثابت ہوسکتا ہے‘ماہرین کا امریکی کانگریس کو انتباہ

منتظم
جمعه, ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

افغانستان میں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف پاکستان عدم تعاون پر امریکا کی مایوسی
پاکستان کے لیے امداد کم کرنے کی سفارش‘ امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے
ایچ اے نقوی
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ہونےوالی بحث کا مسودہ جاری کردیا گیا ہے۔مسودے کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین باب کورکر نے اپنے افتتاحی بیان میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس کو شکست دینے میں پاکستان کے مبینہ طور پر عدم تعاون پر مبنی رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کورکر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر بین کارڈن نے اجلاس کے شرکاسے پوچھا کہ پاکستان کو تعاون پر مجبور کرنے کے لیے امریکی ارکان کانگریس کو کیا اقدامات کرنے چاہییں۔
اجلاس میں شریک جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل مارکی نے کمیٹی کو بتایا کہ ’پاکستان کے حوالے سے پالیسی میں بڑی تبدیلی جیسے امداد کی بندش، دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی ریاست قرار دینا یا پابندیاں عائد کرنے سے قبل ارکان کانگریس کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ایہ اقدامات کس طرح امریکا کے اسٹریٹجک مفاد میں بہتر ہوں گے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کانگریس کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ایسے اقدامات بیک فائر کرسکتے ہیں، اس سے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی تعمیری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی خواہش کو نقصان پہنچے۔
ٍڈینیئل مارکی نے کہا کہ موجودہ صدر بارک اوباما کے مقابلے میں نیا آنے والا امریکی صدر پاکستان کے حوالے سے پہلے سے زیادہ جابرانہ حکمت عملی اپنا سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پاکستان کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کی بجائے اس میں کمی اور تشکیل نو پر غور کرنا چاہیے اور اس عمل کے دوران امریکا کو واضح شرائط اس طریقے سے سامنے رکھنی چاہییں کہ امریکی اور پاکستانی عوام اسے سمجھ سکیں‘۔کارنیگی انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے شریک ڈائریکٹر توبی ڈیلٹن نے کمیٹی کے سامنے وضاحت پیش کی کہ ’امریکا کو کیا کرنا چاہیے اور امریکا کیا کرسکتا ہے، ان دو باتوں میں بہت فرق ہے‘۔انہوں نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا اس وقت سے امریکا نے اسے روکنے کی بہت کم کوشش کی، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ماضی میں پابندیوں اور مراعات کے حوصلہ افزاءنتائج سامنے آئے ہیں‘؟
امریکاکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے اسلام آباد میں تعینات رہنے والے سابق اسٹیشن منیجر روبرٹ ایل گرینیئر نے کمیٹی کو بتایا کہ ’1993 اور 1994 میں پاکستان ان ممالک کی امریکی فہرست میں تقریباً شامل ہو ہی چکا تھا جنہیں امریکا نے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک قرار دیا تھا تاہم امریکی قومی مفادات کی وجہ سے واشنگٹن اس وقت یہ فیصلہ نہیں لے سکا۔
سینیٹر باب کورکر نے یاد دلایا کہ ’رواں برس مئی میں سینیٹ نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لیے فنڈز کے اجرا کو روکنے کا حکم دیا جو میرے خیال سے مناسب اقدام تھا‘۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے امریکی حکومت اور ارکان کانگریس کی مایوسی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ شدت پسند تنظیم حقانی نیٹ کے رہنما پاکستان میں موجود ہیں اور حکومت پاکستان یہ جانتی ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں لیکن ان کے خاتمے کے لیے وہ امریکا کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ان باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ’اگر یہ شدت پسند فاٹا میں ہوتے تو ہم ڈرون طیاروں کے ذریعے انہیں نشانہ بناسکتے تھے لیکن یہ لوگ نواحی علاقوں میں ہیں اور ہم وہاں ایسا نہیں کرسکتے۔
سینیٹر کارڈن نے نشاندہی کی کہ پاکستان کو امریکی فنڈز سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری سے روکنا خاصا مشکل کام تھا، اس حوالے سے ہونے والی مشاورت میں کئی پہلوو¿ں پر غور کیا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے تاہم امریکا کو پاکستان کےسا تھ تعلقات پر اب بھی سنگین خدشات ہیں کیوں کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں کافی محدود دکھائی دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے ماضی میں امداد کا اجرا کارروائیوں سے مشروط کیا لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔سینیٹر کارڈن نے استفسار کیا کہ ’وہ کونسے طریقے ہیں جنہیں ہم بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے رویے میں تبدیلی لاسکتے ہیں‘؟سینیٹر ڈیوڈ پرڈیو نے پوچھا ’کہ اگر اس سوال کا جواب پیسہ نہیں تو پھر کیا ہے‘؟، انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اجلاس میں شریک تینوں ماہرین نے اس بات کا اتفاق کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری اب بھی بامقصد ہے۔انہوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2001 سے اب تک پاکستان کو دیے جانے والے 19 ارب ڈالر میں سے صرف 8 ارب ڈالر سیکورٹی مقاصد کے لیے تھے جبکہ 11 ارب ڈالر انسانیت کی فلاح کے لیے دیے گئے۔سینیٹر نے کہا کہ جہاں تک رقم کی فراہمی کی بات ہے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ جب ہم 30 کروڑ ڈالر یا اس کا نصف روک لیں گے جو ہمیں رواں سال پاکستان کو دینے تھے تو پاکستان کا کیا رد عمل ہوگا۔
پروفیسر مارکی نے بتایا کہ پاکستان کو دی جانےوالی امریکی امداد کو تین کٹیگریز میں تقسیم کیا جائے۔پہلی کٹیگری میں ان معاملات کو رکھا جائے جو ہماری خواہش ہے اور پاکستان کی خواہش ہے، دوسری کٹیگری میں وہ چیزیں شامل کی جائیں جو پاکستان اور امریکا کی مشترکہ خواہش تو ہو لیکن پاکستان اسے مختلف طریقے سے کرنا چاہتا ہو جبکہ تیسری کٹیگری میں ان پہلوو¿ں کو شامل رکھا جائے جہاں ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کام کرے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کام نہیں کررہے۔پروفیسر مارکی نے کہا کہ ’ہم نے امداد کو یہ سوچ کر روکا کہ چیزیں تبدیل ہوں گی لیکن ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کیا کہ ہم ان کے ساتھ شراکت داری چاہتے ہیں، اسی لیے ہم نے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے لیکن اتنا ضرور کیا کہ جو کام وہ نہیں کررہے اسے اس کے پیسے بھی نہیں دے رہے‘۔انہوں نے کہا کہ کئی سال سے ہم انہیں وسیع پیمانے پر معاونت فراہم کررہے ہیں جو کسی کھاتے میں شامل نہیں اور یہ توقع کررہے ہیں کہ ہم اسے بطور ہتھیار استعمال کرسکیں گے، ان کا رویہ تبدیل کرسکیں گے، اس طرح ان میں تبدیلی آنے والی نہیں۔واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں امریکی کانگریس کی سب کمیٹی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دوست ہے یا دشمن؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں