میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک

بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک

ویب ڈیسک
هفته, ۲۱ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

شملہ میں مسجد کے خلاف ہنگامہ آرائی نے بابری مسجد کی یاد تازہ کردی ۔ یہ مسجد1960سے پہلے بنائی گئی ۔اس کی توسیع کا کام 2007 میں شروع ہوا اور 2010میں تعمیرات کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا مگر تعمیری کام جاری رہا ۔ میونسپل کارپوریشن کی عدالت میں اس مقدمہ کی 44 سماعتیں ہوچکی ہیں ۔ اس دوران یہ کسی کی توجہ کا مرکز نہیں بنی مگر 31اگست کو ہندو مسلم نوجوانوں کے درمیان مارپیٹ کے غم غصے کو مسجد کی تعمیر کی جانب موڑ دیا گیا ۔ہندو انتہاپسندوں کے احتجاج کو کانگریس کی حکومت قابو میں نہیں کرسکی بلکہ ریاستی وزیر انیرودھ سنگھ نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے حالات اور بھی بگاڑ دئیے ۔ وزیرتعمیراتِ عامہ وکرمادیتیہ سنگھ نے توازن قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اگر وزیراعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو پہلے سے مناسب اقدامات کرتے تو انہیں نہ اپنے ہائی کمان سے ڈانٹ کھانی پڑتی اور نہ احتجاجیوں کو منتشر کرنے کے پانی کی دھار استعمال کرنے کے بعد پچاس بلوائیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنا پڑتا ۔ ویسے بابری مسجد کے معاملے میں رام کے پرکٹ(نمودار) ہونے اور بابر کے ذریعہ مندر کو ڈھائے جانے کا جو جھوٹ گھڑا گیا تھا وہ یہاں پر موجود نہیں ہے ۔ اس کے باوجود دونوں تنازعات کے پیچھے سیاسی مفادپرستی کار فرما ہے ۔
رام مندر تحریک کا پس منظر یہ ہے کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگائی تو آر ایس ایس کی دھوتی ڈھیلی ہوگئی۔ اس کو گاندھی قتل کے بعد اپنے برے دن یاد آگئے اور آر ایس ایس کے سربراہ سمیت دیگر رہنما اندراگاندھی سے اسی طرح معافی مانگنے جیسے ونایک دامود ساورکر نے انگریزوں سے معافی تلافی کی تھی۔ د یورس کی ایمرجنسی کے دوران (اگست اور نومبر 1975، اور جولائی 1976) اندرا گاندھی کے ساتھ معافی اور صلح سے متعلق کم از کم تین خطوط کی خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کا تعلق اس حقیقت سے بھی تھا کہ آر ایس ایس، ایمرجنسی مخالف ایجی ٹیشن میں شامل ہونے کے بعد، اب سیاسی طور پر اچھوت نہیں رہی تھی۔ آر ایس ایس کے بالا صاحب دیورس (1915-1996) اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان کچھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں ایمرجنسی کے بعد، 1980 میں اقتدار میں واپسی کے ساتھ، کانگریس ہندو فرقہ پرستی کی طرف متوجہ ہورہی تھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ سب سے بڑی آزمائش کا زمانہ تھا ۔ 1980میں جنتا پارٹی سے الگ ہوکر اس نے گاندھیائی سوشلزم کا مکھوٹا اوڑھ کر اپنانیا سیاسی سفر شروع کیا تھاحالانکہ گاندھی اور سوشلزم کے نظریات سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا ۔ اسی مصلحت کے تحت پارٹی کی قیادت معتدل مزاج کے حامل اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھوں میں دی گئی تھی اور راج ماتا وجئے راجے سندھیا کے ساتھ سکندر بخت کو پارٹی کا نائب صدر بنایا گیا تھا ۔ ایسے میں اندرا گاندھی کا قتل ہوگیا اور 1984 میں اچانک ایک غیر تجربہ کار نوواردسیاستداں کی تاجپوشی ہوگئی۔ راجیو گاندھی کی سیاسی ناپختگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے دہلی میں سکھوں کے بدترین قتل عام کو بلا واسطہ جائز ٹھہراتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ‘جب کوئی بڑا پیڑ گرتا ہے تو زمین ہلتی ہے ‘۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ہم بدلہ لیں گے ‘۔ آگے چل کر یہ سمجھانے کی کوشش تو کی انتقام کیسے لیا جائے گا لیکن لوگوں نے اس کا وہی مطلب لیا جو ہوتا ہے اور سکھوں مصائب کا طوفان آگیا۔ان حالات انتخابات کا انعقاد ہوا تو کانگریس نے 49.1فیصد ووٹ حاصل کرکے 404 نشستیں جیت لیں ۔ تیلگو دیشم 30،سی پی ایم 22،جنتا پارٹی 10، سی پی آئی 6،لوک دل 3، اور سب سے نیچے بی جے پی صرف 2 نشستوں پر کامیابی درج کراسکی ۔ اٹل بہاری واجپائی خود ہار گئے اور لال کرشن اڈوانی کو راجیش کھنہ جیسے اداکار نے دہلی میں شکست سے دوچار کردیا ۔ راجیو گاندھی کا چونکہ کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا اس لیے ان شخصیت بدعنوانی جیسے ہر الزام سے پاک تھی۔ کانگریس کے ممبئی اجلاس میں انہوں نے بدعنوانی کے خلاف یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا تھاسرکاری خزانے سے نکلنے والے ایک روپئے میں سے صرف پندرہ پیسہ مستحقین تک پہنچتا ہے ۔ وہ بدعنوانی سے پاک ایک جدید ٹکنا لوجی سے آراستہ ترقی یافتہ ملک بنانے کا عزم لے کر آگے بڑھ رہے تھے ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ کانگریس کے مسٹر کلین کہلانے والے وزیر اعظم کی سرکار پر انہیں کے وزیر خزانہ وی پی سنگھ نے بوفورس توپ کی دلالی میں بدعنوانی کا الزام لگا دیا۔ ان کو ہٹا کر وزیر دفاع بنایا گیا تو پستول کی خریدی میں رشوت خوری کا معاملہ سامنے لے آئے ۔ اس طرح 1988میں وی پی سنگھ نے کانگریس سے علحٰیدہ ہوکر جن مورچہ قائم کی اور پھر جنتا دل کے مختلف گروہوں کو یکجا کرکے قومی محاذ بنایا ۔ وی پی سنگھ کی بغاوت بی جے پی کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تھا ۔ اس نے جنتا دل کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ بی جے پی کی ابن الوقتی اور فرقہ پرستی سے خوب واقف تھے اس لیے تعلق خاطر کے باوجود ایک خاص فاصلہ بنارہا ۔ انہوں نے کسی ایسے خطاب عام میں شرکت نہیں کی جس کے اسٹیج پر زعفرانیوں کا غلبہ تھا۔ متھرا میں ایک مرتبہ وہ جلسہ گاہ سے بغیر تقریر کیے لوٹ آئے کیونکہ اس پر بھگوا پرچم لہرا رہا تھا ۔وی پی سنگھ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ وہ چاہتے ہیں کانگریس پوری طرح ختم ہوجائے تو وہ بولے نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے ہمیشہ دو غیر فرقہ پرست متبادل موجود رہنے چاہئیں جن کے درمیان وہ انتخاب کرسکیں لیکن اتفاق سے یہ صورتحال نہیں رہی جس کے سبب بی جے پی کی قسمت چمک گئی ۔
سچ تو یہ ہے کہ وی پی سنگھ کے مقبولیت کی لہر سے گھبرا کر 9 نومبر 1989کو راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے قریب رام مندر کے سنگ بنیاد کی اجازت دی اور رام راجیہ قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا شاہ بانو مقدمہ یا پرسنل لاء کے قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ راجیو گاندھی کو ہندووں کی ناز برداری کسی کام نہیں آئی اور راجہ مانڈا کے لقب سے مشہور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اس نعرے کے ساتھ وزیر اعظم بن گئے کہ ‘ راجہ نہیں فقیر ہے ۔ یہ بھارت کی تقدیر ہے ‘۔ وی پی سنگھ دراصل بی جے پی کے لیے امید کی ایک کرن تھے اس لیے اشتراکیوں کے ساتھ اس نے بھی جنتا دل کی حمایت کی اور ملک کی تاریخ میں دوسری بارایک غیر کانگریسی حکومت قائم ہوگئی۔ ان کا مختصر دورِ اقتدار کافی اتار چڑھاو سے پُر تھا۔ انہوں بی جے پی کی پروا کیے بغیر مفتی محمد سعید کو وزیر داخلہ بنایا۔ اسی زمانے میں محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ مفتی کو یر غمال بنایا گیا اور پنڈتوں کوجموں کشمیر سے نکلنا پڑا مگر بی جے پی نے ان موضوعات پر اپنی حمایت واپس نہیں لی۔
بی جے پی کے لیے وی پی سنگھ کی حمایت اس وقت نا ممکن ہوگئی جب اگست 1990میں انہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات نافذ
کرنے کا اعلان کردیا ۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ایک ماہ بعد لال کرشن اڈوانی نے 25 ستمبر 1990کو گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک رام رتھ یاترا شروع کردی اور فرقہ پرستی کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ ملک بھر میں دنگا فساد شروع ہوگیا۔ نومبر 1990 اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا۔ اس کا بہانہ بناکر بی جے پی نے وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی حالانکہ اڈوانی نے وزیر اعظم کو لکھے ایک خط میں اعتراف کیا تھا کہ رتھ یاترا نکالنے کی بنیادی وجہ منڈل کمیشن تھی۔ یہ خط اب بھی ذرائع ابلاغ میں موجود ہے ۔ 1989 میں اترپردیش کے اندر بھی جنتا دل کو کامیابی مل چکی تھی۔ وی پی سنگھ کے منظورِ نظر تو اجیت سنگھ تھے مگر ملائم سنگھ کی مقبولیت اور دیوی لال کی حمایت نے انہیں وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔رام مندر تعمیر کی تحریک کا محور یوپی ریاست تھی جہاں ملائم سنگھ یادو وزیرِ اعلیٰ تھے ۔جنتا دل ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے آر ایس ایس، بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کی مہم کی سخت مخالف تھی۔یہی وجہ تھی کہ اکتوبر 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے اعلان کیا کہ اگر کار سیوک یوپی میں داخل ہوئے تو انہیں قانون پر عمل کا سبق پڑھایا جائے گا اور کسی کو مسجد گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بہار میں لالو پرساد کے ذریعہ اڈوانی کی گرفتاری کے باوجود ایودھیا میں کارسیوکوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی ۔ان لوگوں نے 30 اکتوبر 1990 کو بابری مسجد کی جانب پیش قدمی شروع کی تو ان کا پولیس سے تصادم ہوگیا۔ یوپی حکومت نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی اور پولیس نے فسادیوں کو گرفتار بھی کیا۔اس کے بعد دو نومبر 1990 کو ایک اور تصادم میں 17 ہلاکتیں ہوئیں تاہم بی جے پی نے ملائم سنگھ کے حکم پر پولیس کی فائرنگ سے درجنوں افراد کو ہلاک کرنے کا بہتان تراشا اور جھوٹ کی بنیاد فرقہ پرستی کی آگ بھڑکائی۔
ملائم سنگھ یادو نے اپنے اس اقدام پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ 2017 میں اپنی سالگرہ کے موقع پر انہوں نے کہا تھا ملک کا اتحاد قائم رکھنے کے لیے اگر مزید لوگوں کی جانیں بھی درکار ہوتیں تو وہ اس سے دریغ نہیں کرتے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1990 میں ایودھیا کے اندر ہونے والے واقعے کے بعد شمالی بھارت میں ہندو قوم پرستی کی لہر کے آگے ملائم سنگھ یادو ٹھہر نہیں پائے اور بی جے پی کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے ۔ اس طرح بی جے پی کے کلیان سنگھ کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے سپریم کو رٹ کو یقین دہانی کے باوجود 1992 میں بابری مسجد منہدم کرنے دی اور اس کی علامتی سزا بھی پائی مگر ملائم سنگھ یادو کی مقبولیت میں مسلم رائے دہندگان بہت بڑھ گئی۔ اس کے نتیجے میں 2003 کے اندر وہ ایک بار پھر یوپی کے وزیرِ اعلٰی بنے اور 1996 میں مرکزی وزیرِ دفاع کا اہم قلمدان بھی سنبھالا۔ رام مندر کی سیاست نے ملائم سنگھ اور پھر بی جے پی دونوں کا بھلا کیا ۔ ہماچل پردیش کے اندر بی جے پی اور کانگریس یہی چاہتے ہیں ۔مقامی مسلمانوں نے مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک اوپر کے دو منازل کو مقفل کردیا ہے ۔ یہ تعمیری اجازت نامہ کا معاملہ ہے اگر مسلمان مقدمہ ہار بھی جائیں تب بھی کاغذی کارروائی کی تکمیل کے بعد اوپر کی منزلوں کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں