ہسدے ،وسدے رہو۔۔ (علی عمران جونیئر)
شیئر کریں
دوستو،لاہور میں کافی عرصہ رہے ،پنجاب میں ایک دعا کافی پاپولر ہے۔۔ہسدے وسدے رہو۔۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑے گی، آپ کو سمجھ تو لگ گئی ہوگی۔۔ تو آج کچھ ہنسنے ہنسانے والی اوٹ پٹانگ باتوں پر اکتفا کریں گے۔۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آپ لوگوں کا موڈ ہمارے کالم سے خوشگوار ہوجائے، ورنہ اس ملک میں موڈ خراب کرنے کے لیے اور بھی کئی چیزیں ہیں۔۔ تفریح کے چند لمحات یا ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہمارے ملک سے ناپید ہوجارہی ہیں۔۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی ٹینشن میں لگا ہوا ہے، حد تو یہ ہے کہ نماز میں بھی لوگ اپنی اپنی ٹینشن پر غوروفکر کررہے ہوتے ہیں حالانکہ نماز تو ایسا تحفہ ہے جس کی ادائیگی کے بعد اللہ پاک انسان کو ٹینشن فری کرکے بالکل فریش کردیتا ہے۔۔ آج چونکہ جمعہ ہے اس لیے اس حوالے سے یاد دہانی ضروری تھی کہ نمازصرف جمعہ کو ہی فرض نہیں ہوتی، ہفتے کے باقی دنوں میں بھی پانچ وقت نماز لازمی پڑھنی ہے،ماسوائے ان کے جو ابنارمل(ذہنی معذور) یا بچے ہوں۔۔ باقی کسی پر نماز معاف نہیں۔۔ تو چلیں اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔
بزرگ کہتے ہیں کہ جو شخص زیادہ چاول کھائے گا،اسے کبھی کتا نہیں کاٹے گا، اس کے گھر کبھی چوری نہیں ہوگی اور اس کا کبھی ایکسیڈنٹ نہیں ہوگا۔۔ جب نوجوان نسل نے اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ بزرگ ٹھیک ہی کہتے ہیں، کتا اس لیے نہیں کاٹے گا کہ زیادہ چاول کھانے کی وجہ سے گھٹنے جواب دے جائیں گے تو لاٹھی کے سہارے چلنا پڑے گا اور لاٹھی دیکھ کر کتا کبھی قریب نہیں آئے گا۔۔ گھر چوری اس لیے نہیں ہوگی کہ یہ ساری ساری رات کھانستا رہے گا ،نیند آئے گی نہیں۔۔ایکسیڈنٹ اس لیے نہیں ہوگا کہ بیمارہوکر بستر پر پڑارہے گا،چل پھر نہیں سکے گا۔۔ہمارے باباجی بھی کمال شخصیت ہیں، بذلہ سنجی ان پر ختم ہے، ہنسنے ہنسانے والی باتوں کا ایک سمندر ان کے کوزے جیسے دل میں قید ہے، وہ جب مرضی اپنی پٹاری کھول کر قہقہوں کی برسات کرادیتے ہیں۔۔باباجی اپنے بچپن کی یادوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایک دن بتانے لگے کہ۔۔ ایک دن میں اسکول لیٹ پہنچا، ماسٹر جی نے کان پکڑادیئے اور پوچھا لیٹ کیوں ہوئے۔۔ میں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا، ماسٹر جی جس مرغے کی بانگ سے ہم صبح اٹھ جاتے تھے رات پھوپھو اور ان کی فیملی کے لیے گھروالوں نے کاٹ کر پکا ڈالا۔۔اسی طرح ایک روز اسکول سے غیرحاضری کے بعد جب اگلے دن اسکول پہنچا تو ماسٹر جی نے غیرحاضری کی وجہ پوچھی، ہم نے کہا، ماسٹرجی بہت سخت بیمار تھا۔۔ ماسٹرجی نے کہا، اچھا تو کل ڈاکٹر کی ووائی والی پرچی لے کرآنا، ہم نے کہا، ماسٹرجی مسجد کے مولوی سے دم کرایا تھا۔۔
شوہر نے ڈرتے ڈرتے اہلیہ سے پوچھا۔۔ یہ کھانا جو تم نے بنایا ہے اس کا نام کیا ہے؟ بیوی نے تیوریاں چڑھا کر سخت لہجے میں کہا۔۔کیوں پوچھ رہے ہیں؟۔۔شوہر نے بڑی بیچارگی سے کہا۔۔ مجھے بھی تو اوپر جا کر جواب دینا پڑے گا کہ کیا کھا کر مرا ہوں!۔۔۔بیوی نے شوہر سے بڑے غصے کے ساتھ پوچھا، آٹا کہاں سے لائے ہو؟ شوہر کھسیانا ہوکر پوچھنے لگا، کیوں بیگم کیا ہوا؟؟ بیوی نے اسی طرح غصے سے ناک چڑاتے ہوئے جواب دیا۔۔ساری روٹیاں جل گئیں۔۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی فرماتے ہیں۔۔، چہل قدمی کے دوران چند دن میں ایک محترمہ سے تعلق ہو گیا ،اس نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں ؟میں نے کہا کتابیں لکھتا ہوں ،چنانچہ اس نے کتابیں لے کر پڑھیں۔اگلے ہفتے میں نے پوچھا کتاب کیسی لگی ؟وہ بولی۔۔ شکل سے تو آپ اتنے لْچّے نہیں لگتے ۔۔مشتاق یوسفی کا ہی یہ قول تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ۔۔مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔۔مستنصر حسین تارڑ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔۔ وہ کہتے ہیں۔۔مہمان آتے جاتے اچھے لگتے ہیں، کچھ آتے اچھے لگتے ہیں بیشتر جاتے اچھے لگتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا کہ سب سے زیادہ ’’بیزتی‘‘ کب محسوس ہوتی ہے، نہیں پتہ ناں، تو سنیں،جب آپ پوچھیں کتنے پیسے چاہیئے اور جواب ملے، آپ کے پاس کتنے ہیں۔۔ماڈرن سیانے کا تازہ تازہ قول ہے کہ، یا تو سب کچھ مہنگا ہے یا پھر میں بہت ہی غریب ہوں۔۔خاموشی دنیا کا واحد ایسا زیور ہے جسے خواتین تب ہی پہنتی ہیں جب وہ سورہی ہوتی ہیں۔۔کھانسی بزرگوں کا پسندیدہ انڈور گیم ہے، جس سے وہ بیٹھے بیٹھے ایک منٹ میں پورے جسم کی ورزش کرلیتے ہیں۔۔مرد مرچ کی طرح تیز ہوتا ہے اور مرچ چاہے جتنی ہی تیز کیوں نہ ہو،عورت اس کا اچار ڈال دیتی ہے۔۔سورج اور بیوی میں ایک بات مشترک ہے ‘ دونوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا جاتا۔۔ شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں دو شریف شہریوں کوخواہ مخواہ ایک دوسرے سے لڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔۔ دو بیوقوف مل کر ایک عقل مند نہیں بن سکتے،صرف میاں بیوی بن سکتے ہیں۔۔وہ اسے ذہین لڑکی نظر آئی تھی’ اس لیے اس نے اس سے شادی کرنی چاہی لیکن لڑکی نے انکار کر دیا کیونکہ وہ واقعی ذہین لڑکی تھی۔۔ خاوند اور بیوی خوشیوں بھری زندگی گزار رہے تھے کہ ایک دن دونوں کی ایک دوسرے سے ملاقات ہو گئی۔۔۔آج کا کام کل پر نہ ٹالیں وہ پرسوں ہو سکتا ہے۔۔۔محبت اندھی ہوتی ہے لیکن دھیان رکھیں محلے والے اندھے نہیں ہوتے۔
چند شرابی رات گئے تک مے نوشی میں مشغول رہے، حتیٰ کہ ان کی مت پوری طرح ماری گئی اور ان کا اپنے اپنے گھروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا، ان میں سے ایک جو قدرے کم نشے میں تھا، اپنے ساتھیوں کو کار میں ڈال کر انہیں ان کے گھر پہنچانے گیا۔ اس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے خاتون خانہ باہر نکلی، شرابی نے اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’بھابی آپ جلدی سے ان میں سے اپنا شوہر پہچانیں، میں نے ابھی باقیوں کو بھی ان کے گھر پہنچانا ہے۔۔۔ایک امریکی خاتون بار میں لڑکھڑاتی ہوئی نکلی، رستے میں اسے قے محسوس ہوئی تو سڑک کے کنارے دھرے ڈرم میں قے کرنے کے لیے جھکی لیکن نشے کی زیادتی کی وجہ سے وہیں گر کر بے ہوش ہو گئی، ایک سردار جی ادھر سے گزرے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک خاتون جس کا سر ڈرم میں اور ٹانگیں باہر کو لٹکی ہوئی ہیں بالکل بے سدھ پڑی ہے، سردار جی اسے اٹھا کر اپنے فلیٹ میں لے گئے، رومال سے اس کا چہرہ صاف کیا، اسے بستر پر لٹایا اور پھر اپنے روم میٹ کو بلا کر تاسف بھرے انداز میں کہا ’’ہرنام سیاں یہ امریکی قوم بھی بڑی فضول خرچ ہے، اس خاتون کو دیکھو، یہ ابھی دوچار سال مزید چل سکتی تھی لیکن یہ اسے ڈرم میں پھینک گئے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔