تماشا کون کررہا ہے؟
شیئر کریں
نواز شریفجب سے نااہل قرار دیے گئے ہیں ایک ہذیانی کیفیت کا شکار ہیں ۔یوں تو شائستہ سیاست اور نوازشریف دو متضاد سمتوں کا سفر ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھی آمر کی ” سیاسی” جماعت تحریک استقلال (جس میں نہ تحرک تھا نہ استقلال) میں سیاسی جنم لینے والے نوازشریف کی پوری سیاسی تربیت آمروں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ نوازشریف کے دوسرے ” مربی” بھی آمروں کے ساتھی تھے جنرل ملک غلام جیلانی بھی ایوب خان اور یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں ان کے ساتھی رہے تھے جبکہ ایک اور آمر ضیاء الحق کو تو نوازشریف خود اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے آمروں کاوطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی ادارے کو اہمیت نہیں دیتے خصوصاً عدلیہ کو باندی بنا کر رکھنا ہرآمر کی دلی خواہش ہوتی ہے اور ماضی میں عدلیہ نے بھی آمروں کو مایوس نہیں کیا ہے نظریۂ ضرورت آمروں کی خواہش کے احترام میں تخلیق پایا تھا جو بمشکل تمام اپنے انجام کو پہنچا ہے۔
یوم تشکیل پاکستان پر دیگر رہنماؤں کی طرح نوازشریف بھی مصور پاکستان علامہ اقبال کی آخری آرام گاہ پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ یہ دن پاکستان کے استحکام کے تجدید عہدکا دن ہے اس دن ذات سے بالاتر ہو کر ملک اورقوم کے لیے نیک جذبات کا اظہار ہر سیاسی قائد کرتا ہے لیکن اقتدار کے فراق نے نوازشریف کے دماغ پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس موقع پر ان کی گفتگو سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔نوازشریف بھی بھٹو کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں لیکن وہ بھٹو کا انجام بھول گئے ہیں ۔سانحہ سقوط ڈھاکا فوج کی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ یہ سانحہ بھٹو کے ہوسِ اقتدار کا نتیجہ تھا ۔بھٹو نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سازش تیار کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے تو مغربی پاکستان میں انتخابات میں امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن بھٹو کی پیپلزپارٹی نے مشرقی بازو میں نہ تو اپنا پارٹی سیٹ اپ بنایا تھا نہ ہی امیدوار کھڑے کیے تھے۔ یوں ملک کے بڑے حصہ سے بھٹو کی عدم دلچسپی ظاہر ہوتی تھی اور سیاست اور حصول اقتدار کے لیے ملک کے بڑے حصہ کو نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا لیکن جب منصوبہ بندی ہی اس نہج پر کی گئی ہو تو پھر یہ سب اپنی سمت میں درست تھا۔
نوازشریف کو اقتدار سے علیحدگی اور تاحیات نااہلی کے بعدووٹ کے تقدس کا خیال آیا ہے لیکن جب چھانگا مانگا کی منڈی سجائی جاتی تھی جب ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت جانوروں کی طرح ہوتی تھی جب آئینی ترمیم کے ذریعہ ارکان اسمبلی کی زبانوں پرتالے ڈالے گئے پارٹی فیصلے سے اختلاف رائے کے اظہار پر قدغن لگائی گئی تو شاید یہ سارے اقدام ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے تھے۔ جب پارٹی کو پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جاتا رہا تو یہ بھی شاید ووٹ کا احترام ہی تھا۔نوازشریف کا یہ فرمانا کہ اگر تماشا بند نہ ہوا تو سقوط مشرقی پاکستان کی طرح کا کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تماشا لگایا کس نے ہے ؟پاناما پیپرز پر عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ خیال تھا کہ پارٹی کی طرح عدلیہ بھی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ثابت ہو گی۔ نظریۂ ضرورت اپنا رنگ دکھائے گا اور پھر فیصلہ نظریۂ ضرورت کے مطابق آئے گا لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی گزر چکا ۔نہ یہ 60 کی دہائی ہے نہ1988 ہے۔ عدلیہ اب نظریۂ ضرورت نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ نظریۂ ضرورت وہاں ہوتا ہے جہاں ناگزیریت ہوتی ہے اور ناگزیر وہ ہوسکتا ہے جس کو فرشتۂ اجل سے مفرحاصل ہو جب فرشتۂ اجل سے کسی ذی روح کو مفرحاصل نہیں تو پھر کیسا نظریہ ضرورت؟ پہلے سراج الحق اور بعدازاں عمران خان نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ عمران خان سراج الحق سے زیادہ سوشل اور الیکڑانک میڈیا پر متحرک ہیں۔ یوں پاناما پیپرز کا کیس عوام میں زندہ رہا ورنہ خواجہ آصف نے تو اسمبلی فلور پر کہاتھا کہ لوگ چند دن میں سب کچھ بھول جائیں گے لیکن لوگ بھولے نہیں۔ جمہوریت میں حزب اختلاف کا بنیادی کام ہی حکمرانوں کی کوتاہیاں سامنے لانا اور ان پر اپنے اقتدار کی عمارت تعمیر کرنا ہوتا ہے پھر پاکستان میں جمہوریت ابھی نوزائیدہ ہے۔ یہاں حزب اختلاف حکمرانوں کی کوتاہیوں کا ریکارڈ تیار نہیں کرتی انہیں ہروقت کیش کرانے کی کوشش کرتی ہے جہاں جمہوریت پختہ ہو چکی وہاں ایک ووٹ کی اکثریت بھی حکمرانوں کے لیے اپنی مدت پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 5 معزز ججوں نے متفقہ فیصلہ سنایا ہے اور معزز ججوں نے اتمام حجت کیا ہے۔ دو معزز جج تو ابتدائی سماعت کے بعد ہی نااہل قرار دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن 3 معزز ججوں نے مزید تحقیق وتفتیش کا حکم دیکر نوازشریف اور اس کے ٹبر کو موقع دیا تھا کہ اب بھی وقت ہے اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ اپنے اثاثہ جات کو قانونی ذرائع سے حاصل کیا گیا ثابت کرو اور سرخرو ہو جاؤ۔لیکن اس موقع کو ضائع کس نے کیا؟ اس عرصہ میں جعلی دستاویزات کس نے جمع کرائیں ؟کیا مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ عمران یاسراج الحق نے جمع کرائی تھی؟ جرائم کی دنیا کا ایک اصول ہوتا ہے مجرم کتنا ہی ذہین وفطین ہو فطرت اس سے حماقت کرادیتی ہے۔ فطرت کا یہ اصول یہاں بھی اثر پزیر ہوا اور مریم صفدر کی ٹرسٹ ڈیڈ پچھلی تاریخوں میں اس فونٹ میں تیار کیا گیا جو تب ایجاد کے مراحل میں تھا ۔اس پر تو دلائل دیے جا سکتے تھے کہ تجرباتی طور پر یہ ٹائپ استعمال کیا گیا لیکن اس ٹرسٹ کے لیے دستاویزات( اسٹامپ پیپرز )کی خرید جس دن ظاہر کی گئی اس دن تو برطانیہ میں اسپتال، ہوٹل اور ریسٹورینٹ کے سوا تمام کاروبار بند ہوتا ہے۔ ہفتہ اوراتوار تو عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس دن نہ عدالت کھلتی ہے نہ کاروبار برطانیا کے شہری ہفتہ وار تعطیل سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس دن فون سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔پہلے فون کے اسکرین پر نمبر دیکھتے ہیں پھر فون سننے یا نہ سننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس دن اسٹامپ فروش بھی موجود تھا اس نے اسٹامپ فروخت بھی کیے اور پھر اس دن ہی دستاویزات تیار ہوگئیں اور اس ہی دن ان کی تصدیق بھی کرالی گئی تو تماشا کون کر رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں نے اپنا فیصلہ سنایا اور پھر دیگر مقدمات کی سماعت میں مصروف ہو گئے۔ جے آئی ٹی کے ارکان نے اپنے اپنے محکموں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو پھر تماشا کون کر رہا ہے؟ کون عدالتی فیصلہ کاتمسخر اُڑا رہا ہے؟ عوام کو عدالت کے خلاف اُکسارہا ہے کون جلسے اور ریلی نکال رہا ہے؟ تماشا تو وہ کر رہے ہیں جو عدالتی فیصلہ کو قانون کے بجائے دباؤ کے ذریعہ تبدیل کرانا اور اداروں سے ٹکراؤ چاہتے ہیں جو عوام کو عدالتی فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پر اُکسا رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ کسی طاقتور کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس سے قبل بھی ایک وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تھااس نے تو فیصلہ قبول کیا اور گھر کی راہ لی تھی۔ نوازشریف کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ تسلیم کریں اور قانون کا راستا اختیار کریں لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے صادق اور امین نہ ہونے پرنااہل قرار دیے جانے اور کرپشن کے معاملات نیب کے حوالے کرنے کا حکم ہی وہ تکلیف دہ امر ہے جس نے نوازشریف کو تماشا لگانے پر مجبور کر دیا ہے دیگر معاملات تو اپنی جگہ صرف حدیبیہ پیپرز ملز کا کیس بھی پورے ٹبر کے سیاسی تابوت کو پیک کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کیس میں توصرف نوازشریف ہی نہیں شہبازشریف اور عباس شریف کی فیملی بھی ملوث ہے ۔یوں پورا ٹبر ہی بدعنوان ثابت ہونے جا رہا ہے۔ نوازشریف اس تماشے کے ذریعے نیب اور اداروں کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب ادارے دباؤ ڈالتے ہیں قبول نہیں کرتے ۔یقین نہ ہو تو جے آئی ٹی کی پوری تحقیق دیکھ لیں بات سمجھ آجائے گی ۔بلکہ بڑے گونگلو کی تصویر کے ذریعہ دباؤ کی کوشش نے تو الٹا اثر دکھایا تھا اوراب بھی دبائو کا ہر حربہ گلے میں پڑی رسی کے تناؤ میں اضافہ ہی کرے گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے اعادہ کی دھمکی دینے والے اس سانحہ میں ملوث تمام کرداروں کا عبرتناک انجام بھی یاد رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ1971نہیں2017 ہے۔ وطن کے تحفظ کے لیے اُٹھنے والے ہاتھوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
٭٭…٭٭