مسئلہ کشمیر پرمحمود خاں اچکزئی کانیا شوشا
شیئر کریں
رکن قومی اسمبلی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خاں اچکزئی نے حالیہ انٹرویو میںایک نیا شوشا چھوڑتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ’’مسئلہ کشمیر کا حل اْس کی آزادی ہے اور پاکستان اس میں پہل کرے‘‘ ۔اس وقت جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی خود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل بندوق کی طاقت نہیں بلکہ مذاکرات ہے۔یہ بات سوچنے کی ہے کہ اچکزئی صاحب جن کی بھارت دوستی اور پاکستان دشمنی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط کے حوالے سے اس طرح کی بات کس کی ایما پر یاکسے خوش کرنے کے لیے کررہے ہیں؟مسائل پر اظہار خیال ہر ایک کا حق ہے اور کسی کایہ حق سلب نہیں کیاجاسکتا لیکن قومی اسمبلی میں پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے کے دعویدار ارکان کو ہر بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے اور ایسی کوئی بات کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس کاان سے کوئی تعلق نہ ہو اور جس کے بارے میں ان کی معلومات ناقص ہوں۔ اچکزئی صاحب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیناچاہئے کہ کشمیریوں کا فیصلہ کرنا ان کا کام نہیں،کشمیری عوام آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق ؟یہ کشمیریوں کا فیصلہ ہے اور یہ فیصلہ وہ گزشتہ70 برس سے بار بار اور مسلسل دنیا کو سْنارہے ہیں۔
یہ فیصلہ کشمیریوں نے پاکستان کے یومِ آزادی پر پاکستان کا پرچم لہرا کرہر بار سنایا اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ میں بدل کردکھایا۔ یہ فیصلہ تب تب سنایا جاتا ہے جب بھارتی مظالم سے کسی ماں کا بیٹا شہید ہوتا ہے اور اْس کا جنازہ پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر شان و شوکت سے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ تب تب سنایا جاتا ہے جب کشمیری لڑکیاں درس گاہ جاتے ہوئے بھارتی ظلم کے سامنے دیوار بن کر اپنا مقصد حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔
محمود خاںاچکزئی صاحب کی بات اس حد تک تو درست تسلیم کی جاسکتی ہے کہ کشمیریوں کو آزادی چاہیے لیکن وہ یہ آزادی بھارت کے ظلم وستم سے، جابرانہ تسلط سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اچکزئی صاحب کو اس سادہ سی حقیقت کا علم نہیں تو انھیں پہلے اس معاملے کا پورے سیاق وسباق کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے ۔کاش اچکزئی صاحب اپنے لبوںکو اِس بے تکان گفتگو کے بجائے کشمیریوں پر بھارت کے ڈھائے جانے والے ظلم کیخلاف حرکت دیتے۔ کاش ان کوکشمیرکی برہنہ سر خواتین پر ہونے والا ظلم نظر آتا، نوجوانوں کے لاشے اور اْن پر تڑپتی ماں، بوڑھا باپ نظر آتا لیکن افسوس اچکزئی صاحب نے تمام حقائق نظر انداز کردیے اورزبان کھولی بھی تو کشمیری عوام کی امنگوں اورپاکستان کے خلاف ہی کھولی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اچکزئی صاحب کو کشمیر جانے کاموقع ملاہے یانہیں اوروہ کبھی کشمیریوں سے ملے ہیں، اورکشمیر کی سرزمین سے کس حد تک واقف ہیں؟ لیکن اگر ان کو کشمیر میں بھارت کا ظلم نظر نہیں آتا تو پاکستان کے حصے آزاد کشمیر میں ہی چلے جائیں وہاں کا امن و سکون، لوگوں کے چہروں پر اطمینان، جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر اور وہاں کے لوگوں کی پاکستان سے محبت ہی دیکھ لیں پھر ان کو اندازا ہو جائے گا کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ الحاق۔
محمود خاںاچکزئی صاحب بھارت اور افغانستان کے پیار میں اِس حد تک نابینا ہوگئے ہیں کہ اِن کو افغانستان اور بھارت کے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔لیکن دانشمندی کاتقاضا یہی ہے کہ اگر وہ کشمیریوں پر بھارت کے مظالم کی مذمت نہیں کرسکتے تو اس معاملے میں زبان کھولنے اور اپنا مذاق اڑانے کاموقع دینے کے بجائے خاموش ہی رہیں اور کشمیری عوام کو اْن کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں اور پاکستان کے جس صوبے میں آپ کا پورا خاندان حکمرانی کر رہا ہے اور وفاق سے جس پیار و محبت سے آپ جڑ کر بیٹھے ہیں پہلے وہاں کے حالات بہتر کریں، اپنے خاندان کے افراد سے اْن کے حلقوں میں کارکردگی دریافت کریں۔
اچکزئی صاحب کو یہ بات فراموش نہیںکرنا چاہئے کہ بھارتی فوجوں نے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی آواز کو دبانے کے لیے گزشتہ 70 سال سے ہی ان پر مظالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے مگر پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا رکھنے والے غیور کشمیری عوام سینہ تان کر بھارتی سنگینوں کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنے کاز کی خاطر جانیں نچھاور کرتے ہوئے دنیا کے سامنے بھارتی مظالم اُجاگر کررہے ہیں۔ کشمیری عوام نے پاکستان کے 70ویں یوم آزادی پر بھی پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرکے پاکستان کے ساتھ الحاق سے متعلق اپنی متعین منزل سے دنیا کو آگاہ کیا جبکہ بھارتی فوجوں نے ان کی آواز دبانے کے لیے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر ان کیخلاف ریاستی ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ضلع شوپیاں میں تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا،بھارتی قابض فوجوں نے علاقے میں آپریشن کے دوران چار رہائشی مکان بارودی مواد سے اڑا دیے اور نہتے کشمیریوں پر بے دریغ پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد کشمیری زخمی ہوئے اور بینائی سے مستقل طور پر محروم ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اس علاقے میں بھارتی فوجیوں اور مجاہدین کے مابین جھڑپ سے ایک کیپٹن سمیت دو فوجی جہنم واصل اور متعدد زخمی ہوگئے۔ کشمیری حریت قیادت نے ان بھارتی مظالم کیخلاف 15 اگست کو بھارت کے71ویں یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا،اور یہ باور کرایا کہ جب تک بھارت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم نہیں کرتا اور آزادانہ رائے شماری کے ذریعے انہیں اپنے مستقبل کے تعین کا موقع فراہم نہیں کرتا‘ اسے جموں و کشمیر میں جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح کشمیریوں پر بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے مختلف مکاتب فکر کے علمانے بھارتی قومی ترانے کو غیراسلامی قرار دے کر یوم جمہوریہ کے موقع پر یہ قومی ترانہ پڑھنے سے صاف انکار کردیا ۔ اس سلسلے میں مولانا سید رضا خان نے بھارتی میڈیا سے گفتگو کے دوران باور کرایا کہ ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے ہم یہ ترانہ نہیں پڑھیں گے کیونکہ اس ترانے میں برطانوی بادشاہ جارج پنجم کو جس کے عہد میں یہ بھارتی ترانہ لکھا گیا تھا‘ ادھی نائیک یعنی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔امر واقعہ یہی ہے کہ آج کشمیری ہی نہیں‘ بھارتی عوام بھی بھارت کی جنونی اور انتہاپسند مودی سرکار کی پاکستان اور مسلم دشمن پالیسیوں اور بھارتی فوجوں کی جانب سے توڑے جانیوالے مظالم پر نفرت کے اظہار کے لیے احتجاج کے مختلف اور منفرد راستے اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر قومی ترانہ پڑھنے سے گریز بھی اسی احتجاج کا ایک راستا ہے ۔
کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی بھارتی چالبازیوں اور سازشوں کا اندازااس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پاکستان اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے سے روکنے کے لیے1972میں پاکستان کے ساتھ جبر کے حالات میں شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت مسئلہ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا لالی پاپ دیا گیا اور پھر بھارت اس معاہدے سے بھی مکر گیا چنانچہ یہ تلخ حقیقت بھی ہماری تاریخ کے ریکارڈ میں شامل ہوچکی ہے کہ بھارت نے اب تک مذاکرات کی ہر سطح کی ڈیڑھ سو سے زائد کوششوں کو خود ہی ناکام بنایا ہے اور وہ دوطرفہ مذاکرات کے ہر اہتمام کے موقع پرپاکستان کو کشمیر کو بھول جائو والا پیغام دینے کی کوشش کرتا رہاہے۔ بھارت کی شروع دن سے نیت بھی یہی ہے کہ کشمیر کا کسی بھی صورت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جائے تاکہ اس کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کا رخ موڑ کر اور پانی روک کر پاکستان کی زرخیز دھرتی بنجر بنادی جائے اور اس طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرکے اسے اپنے لیے تر نوالہ بنالیا جائے،محمود خاں اچکزئی جیسے رہنما کے اس طرح کے بیانات سے بھارت کی جارحانہ سوچ کو تقویت ملے گی اور وہ کشمیر پر اپناتسلط برقرار رکھنے کے لیے ان کے اس طرح کے بیانات کو دنیا کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ خود پاکستان کے اپنے سیاستداں بھی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کونہیں مانتے اس لیے پاکستان کو آزاد کشمیر کے معاملات سے الگ تھلگ کیا جائے۔کشمیری عوام نے اس بھارتی بدنیتی کو بھانپ کر ہی اپنے حق خودارادیت کے لیے بھارتی فوجوں کے آگے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کی لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیکر بھی اپنے حق خودارادیت کے اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں صبر و استقامت کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگر وہ بھارتی مظالم سہہ کر 70سال سے بھارتی تسلط سے آزادی کی اپنی جدوجہد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے آزادی کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا تو انکے جذبوں کیخلاف آئندہ بھی کوئی بھارتی ہتھکنڈہ کارگر نہیں ہو سکے گا اور وہ آزادی کی تڑپ میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی منزل حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کیاہے کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق حتمی ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتانہیں ہو سکتا چنانچہ یہی زبان خلق کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے نقارہ خدا بنے گی۔
امید کی جاتی ہے کہ محمود خان اچکزئی پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنے وطن سے محبت کاثبوت دیں گے اور بھارت اور افغان حکومت کی وکالت کرنے کے بجائے مظلوم کشمیری عوام کا ساتھ دینے کی اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔
٭٭…٭٭