بلدیہ عظمیٰ کراچی مالیاتی اسکینڈل میںٹھیکیداروں کے خلاف شکنجہ تیار
شیئر کریں
بلدیہ عظمیٰ کراچی سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل میں کراچی کے نامی گرامی ٹھیکیداروں کی بڑی تعداد موجود ادھر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایک ارب 80 کروڑ کی ادائیگیوں کے مکمل ثبوت حاصل کر لیے گئے دوسری طرف ایک معروف قانونی ماہر کی معرفت عدالت سے رجوع کرنے کی تیاریاں بھی مکمل بڑے کردار جلد قانون کے سخت شکنجے میں جکڑے جانے کے قوی امکانات ادھر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انجینیرنگ (ٹیکنیکل) کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں اور ٹینڈر ٹھکانے لگانے کے لیے کراون پلازہ نزد نشتر پارک کو غیرقانونی طور پر سرکاری دفتر میں تبدیل کردیا اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق کہا جارہا ہئے کہ ایک ٹھیکیدار اطہر شاہ کے نجی دفتر کو آماجگاہ بنا لیا۔ 239 اے ڈی پی اسکیموں کو بھی اسی دفتر میں من پسند ٹھیکیداروں کو بلا کر ٹھکانے لگایا گیا۔ 5 ارب روپے کے لگ بھگ مالیت کی ان اسکیموں کو جن ٹھیکیداروں کو دیا گیا ہے اس کی تفصیلات آئندہ اشاعت میں شامل کی جائیں گی کئی چہرے بے نقاب کرنے کا وقت بھی آپہنچا کمال کی فنکاری کسی قسم کا کوئی کام زمین پر کئے بغیر ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں کی گئیں۔ ان 5 ارب کے کاموں میں سے ایک ارب 80 کروڑ کی رقم آپسی بندر بانٹ میں ٹھکانے بھی لگادی گئی اور مذید اے ڈی پی کی مد میں آنے والی رقوم سے باقی 3 ارب کی تقسیم اور ٹھکانے لگانے کیلے مافیا نے کمر کس رکھی ہئے ذرائع کا کہناہے کہ کراؤن پلازہ نزد نشتر پارک میں اطہر شاہ کے دفتر میں اس گورکھ دھندے پر تیزی سے کام جاری ہئے تاکہ جلد باقی رقم کا بھی بٹوارہ ہو سکے ادھر ماہرین قانون کا کہنا ہئے کہ سرکاری امور و دستاویزات کو گھر یا نجی دفتر میں لے جانا قانون کی کھلی خلاف ورزی اور جرم ہئے اس حوالے سے ماہر قانون زولفقار ڈومکی ایڈوکیٹ ہائی کورٹ نے بتایا کہ سرکاری الاٹ شدہ دفتر سے ہٹ کر کہیں اور خصوصاً کسی نجی دفتر میں کام کرنا غیر قانونی اور حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انھوں نے حاصل ثبوتوں۔ شواہدات و دستاویزات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ جن کاموں کا زکر اے ڈی پی بک سال 2022 – 2003 میں درج ہے کہ یہ کام ابھی ہونے ہیں ان کی ادائیگیوں کے ثبوتوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایڈوکیٹ ذولفقار ڈومکی نے بتایا کہ دستاویزات کی ابتدائی جانچ پڑتال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ تاریخی اسکینڈل ہوگا اور اس حوالے سے کیس بہت مضبوط بنے گا اور اسکے مرتکب اور اس میں ملوث افسران کو ہتھکڑیاں لگ سکتی ہیں انہوں نے کہا کہ کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر ادائیگیوں پر محکمہ فنانس کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے جبکہ محکمہ انجینیرنگ کے اس کیس میں مکمل ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں جو کیس کے لیے کافی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن ٹھیکیداروں نے بغیر کام کیے چیک وصول کیے ہیں ان کی بڑی فہرست موجود ہیں جس میں ادائیگیوں کے ثبوت بھی شامل ہیں اس لیے ان ٹھیکیداروں کو بھی فریق بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس کھیل میں سابق ڈی جی سمیت دیگر کے ناموں کے ثبوت بھی حاصل کر لیے گئے ہیں جنہیں مقدمہ میں فریق بنایا جائے گا۔ اور کوشش کی جائے گی کہ اس کیس کی نیب کے ذریعہ تحقیقات کروا کر عدالتی کاروائی کرائی جائے۔