ٹھیکیداری نظام اور لمحہ فکریہ
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں ٹھیکیداری نظام بہت اچھے انداز میں چل رہا ہے۔ ادارے ٹھیکے پر ،تھانے ٹھیکے پر ،تعیناتیاں ٹھیکے پر اور ملک آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر اور پھر جو حشر ٹھیکیداروں نے اس ملک کا کردیا ہے، اس کا بھی سب ہی کو اندازہ ہے۔ ہم ٹھیکیدار عموماً اسے سمجھتے ہیں جو کوئی کام مقررہ قیمت پر لے کر مقررہ وقت پر مکمل کردے اور پھر اسکی گارنٹی بھی دے کہ میرا یہ کام اتنے عرصہ تک خراب نہیں ہوگا لیکن ہو اس کے الٹ رہا ہے۔ وہ کیسے اس کی تفصیل آخر میں لکھوں گا پہلے آپ یہ معاہدہ پڑھ لیں جو حکومت نے منتیں اور ترلے کرکے قرضہ لینے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)سے کیا ہے۔ یہ تفصیلات بھی آئی ایم ایف نے ہی جاری کی ہیں تاکہ عوام کو علم ہو سکے۔ اسی لیے تو وزیر اعظم نے قوم سے کہا ہے کہ قوم میثاق معیشت پر متحد ہو جائے کیونکہ اس معاہدے کے بعد ملک میں بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو گی ہی ساتھ میں ٹیکسوں کی بھی بھر مار ہونے والی ہے۔ آئی ایم ایف کی تفصیلات سامنے آنے کے بعداب ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ملک میں غربت کا خاتمہ ہو نہ ہو لیکن غریبوں سے جان چھوٹ جائیگی ان کا خاتمہ اب یقینی ہے اس کی بڑی وجہ وہ یقین دہانی ہے جو حکومت نے آئی ایم ایف کو کروانے کے بعد قرضہ حاصل کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تفصیلات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں بلکہ خود انہوں نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے ان کے ساتھ کیا معاہدہ کیا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت خود اس معاہدے کو عوام تک لے کر آتی لیکن انہوں نے اسے چھپائے رکھا۔اس معاہدے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پرائمری سرپلس 401 ارب روپے رکھا جائے گا۔ زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا ۔توانائی کے شعبے کی سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی، تنخواہوں اور پینشن کی مد میں اخراجات کو کم کیا جائے گا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)جیسے کفالت پروگراموں کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا ۔مرکزی اور صوبائی حکومتیں بہبود کے شعبے میں فنڈز بڑھائیں گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت درآمدات پر پابندیاں ختم کی جائیں گی۔ کرنسی کی شرح تبادلہ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے گا۔ حکومت معاہدے کے تحت نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کرے گی۔ حکومت ٹیکس چھوٹ یا ٹیکس مراعات جاری نہیں کرے گی۔ جبکہ سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ بھی جاری کی جائے گی۔ ڈالر کے اوپن اور انٹربینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا۔ 2024 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا ۔نیشنل اکاونٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو زر مبادلہ ذخائر بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی ۔حکومت بی آر میں ٹیکس ریفنڈ کے مسائل کو فوری حل کر کرنے کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کے بقایاجات کوبھی کلیئر کرے۔
اس معاہدے کی روشنی میںپاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے اور پاکستان کی معیشت سست شرح نمو کا شکار رہے گی جس سے معاشی ترقی کی شرح 2.5 فیصد ہوسکتی ہے ۔ مالی سال 2024 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہوسکتی ہے جبکہ مالی سال 2023 کے دوران پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد رہی اور اس سے قبل مالی سال 2022 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی ۔پاکستان کا مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے ۔ معیشت میں قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ نومبر 2023 اور فروری 2024 میں پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیا جائے گا۔ دونوں جائزوں سے پہلے پاکستان کو کارکردگی دکھانا ہوگی اور حکومت نئے اقدامات کرنے اور پالیسیوں میں تبدیلی کیلئے آئی ایم ایف سے مشاورت بھی کرے گی اورپاکستان آئی ایم ایف کو بروقت مستند ڈیٹا فراہم بھی کرے گا۔ شروع میں جیسے میں نے ٹھیکیداری نظام کی بات کی تو ساہیوال سے ایک ٹھیکیدار دوست سید محمد علی بخاری نے مجھے میسج کیا کہ محکمہ پاک پی ڈبلیو ڈی ساہیوال میں 20 جولائی 2023 کو تینوں اضلاع پاکپتن،اوکاڑہ،اور ساہیوال کے ممبران اسمبلی کی گرانٹ کے اربوں روپے کے ٹینڈرز ہوئے اس سے قبل بھی ساہیوال میں دو ماہ قبل پاک پی ڈبلیو ڈی ڈیپارٹمنٹ میں 4 ارب کے ٹینڈرز ہوے تھے۔ اس وقت کے ایکسین رفاقت نے جو کہ ریٹائرمنٹ کے آخری ماہ گزار رہا تھا نے اپنی سروس کا آخری چھکا مارتے ہوئے اس نے لاہور سے تعلق رکھنے والے کنٹریکٹرز بٹ برادران کو ساہیوال بلوا کر ان سے اوکاڑہ،پاکپتن اور ساہیوال کے اراکین اسمبلی کو دس فیصد کمیشن دلوانے کے بعد خود ان سے پارٹنر شپ کرکے ان کو ایک ارب روپے کے کاموں کے ٹینڈرز دے دیے اوربٹ برادرزان کو اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ پہلے سو فیصد ایڈوانس پیسے بھی دے دیے تو بٹ برادران نے تیزی سے کام شروع کر دیا۔ ابھی سب بیس بھی پوری طرح سے نہ ڈالا تھا کہ ایکسین رفاقت کی محکمہ پاک پی ڈبلیو ڈی سے ریٹائرمنٹ ہو گئی جسکے بعدبٹ برادران نے تمام کام بند کرکے مشنری واپس لے گئے جب بٹ برادران سے ایکسین رفاقت نے حصہ مانگا اورایم این ایز کے اصرار پر جلد کام مکمل کرنے کا کہا تو انہوں نے حصہ دینے اور کام مکمل کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کام میں بری طرح سے نقصان ہو گیا ہے۔ اب بٹ برادران کے خلاف کارروائی کون کریگا؟کیا وہ ڈیپارٹمنٹ کریگا َ؟جسکے کلرک اور سب انجینئر سے لیکر چیف انجینئر تک نے 24 فیصد کمیشن ورک آرڈر سے بل پاس کرنے تک لے کر ہضم کرلیا ہو یا وہ عوامی خدمتگار قسم کے اراکین اسمبلی کرینگے جنہوں نے دس فیصد کمیشن لیکر انہیں اپنے حلقے کے کام خود دیے ساہیوال سے ہی یاد آیا کہ تھانہ کسووال کے سابق ایس ایچ او عمر دراز سب انسپکٹرنے بھی منشیات کے کیس میں مبینہ طور پر لاکھوں کی دیہاڑی لگاتے ہوئے آدھی چرس بھی ہضم کرلی جسکے بعد اسے اب ساہیوال شہر میں ایس ایچ او لگا دیا گیا ہے تاکہ شہر میں منشیات کی سپلائی عام ہو سکے یہ لمحہ فکریہ ہے ۔
٭٭٭