مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
شیئر کریں
آہ یہ دن بھی دیکھنے تھے، حج کے دن گزرے جاتے ہیں۔ مگر دو ارب مسلمانوں کی یہ عبادت سفاکانہ طبّی تصورات کی بھینٹ چڑھا دی گئی ۔ فہم عامہ(کامن سینس) کے معمولی سوالات کے جواب دینے سے قاصر عالمی صحت کے ادارے ایک مخصوص ایجنڈا مسلط کرنے پر تُلے ہیں۔ مسلمانوں کی حقیقی عبادت گاہ بھی نشانے پر ہے۔مگر” جدیدیت” کے بیٹے اور” ترقی” کے دیوانے اللہ سے بے نیاز ہوگئے۔ ان کا نیا خدا عالمی ادارہ صحت کی منحوس عمارت میں رہتا ہے۔خدا پرستی کا سب سے پہلا مرکز اور معبود کو پکارنے کا سب سے قدیم طریقہ اب اللہ کی رضا کا ذریعہ نہیں۔ کورونا وبا کے نام پر طاری مصنوعی ماحول میں ضوابط کی پیروی اب جدیدیت کی نئی ”عبادت ” ہے۔ ہم سب ڈبلیو ایچ کے کعبے کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ اس کے مسلط کردہ ضوابط اب دنیا کا نیا عقیدہ ہے۔ جدیدیت پر ایمان کے ان مظاہر میں حقیقی عبادت کا کوئی تصور شیطان کی پیروی جیسا خطرناک کام بنادیا گیا ہے۔ کیا کیفیت رہی ہوگی جب علامہ اقبال نے فرمایا:
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے
جادو کیا ہوتا ہے، وہی جو سرچڑھ کر بولے! جدیدیت کا جادو ایسا ہی ہے، سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کورونا وبا پر منطقی، طبی اور حقیقی سوالات اُٹھائے جائیں تو آپ جاہل تصور کیے جاتے ہیں۔ جدیدیت کا جادو یہی ہے۔ مغرب سوال اُٹھانے کو علم کہتا ہے۔ فلسفے کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اللہ پر ایمان کو بھی عقل کی حاکمیت میں دینے والا جدید فلسفہ مذہب پر سوال اُٹھانے کو عین علم قرار دیتا ہے۔ مگر اپنی دنیا پر سوال اُٹھانے نہیں دیتا۔ اُسے وہ جہالت کے ہم معنی بنادیتا ہے۔ جادو یہی ہے کہ اسلامی تحریکوں کے کارکن بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال اُٹھانے نہیں دیتے۔ اعداد وشمار کو ان دیکھا کرتے ہیں۔ عام اموات کو کورونا کی تعبیر دیتے ہیں۔ عبادتوں پر الحاد کے پیروکاروں کے ضوابط تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آہ کن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑگیا؟ اسلامی تحریکوں کے سربراہ اب سرجیکل لباس پہن کر تصویریں کھنچواتے ہیںکہ جدیدیت کے خدا جان لیں ، ہم اُن کے پیروکار ہیں۔ اللہ کے نہیں۔ یہ دنیا دو اسکیموں پر ہے۔ ایک انسان کو خدا مان کر مغرب کی بنائی ہوئی اسکیم سے چلنے والی دنیا۔ دوسری انسان کو اللہ کا بندہ قرار دینے والے معبود کی بنائی دنیا۔ دونوں دنیاؤں کے چلنے چلانے کے ضوابط الگ الگ ہیں۔ ایک دنیا کا اعلان ہے، بل گیٹس کے ضوابط پر تمہارے شب وروز طے ہوں گے۔ دوسری دنیا کا اعلان ہے کہ اللہ کی ذات سے سب کچھ ہونے پر ایمان اور مخلوق سے اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہ ہونے کا یقین دراصل زندگی کو حقیقی معنی دیتا ہے۔ مسلمان فیصلہ کرلیں، وہ آج کل کس دنیا میں رہتے ہیں۔
حج دراصل مغرب کی بنائی ہوئی اسکیم سے چلنے والی دنیا کی ناکامی کا بلیغ اعلان کرتا ہے۔ یہ مغرب کے عقیدۂ ترقی کی حقیقی تذلیل کرتا ہے۔ مغرب اپنی ترقی کے اوج پر جن دعووں کے ساتھ بسیرا کرتا ہے، وہ حج کے روحانی اور معنوی ثمرات کے آگے پھیکے، ہلکے، جھوٹے، چھوٹے اور کھوکھلے پڑ جاتے ہیں۔ مغرب کے عقیدۂ ترقی سے جنمتا ہر دعویٰ دراصل بنی نوع انساں کے لیے ایک مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ علوم میں ارتفاع، ٹیکنالوجی میںارفع ہونے کے مغربی اعلان سے جس دعوے نے جنم لیا تھا، وہ فاصلوں کے سمٹنے اور دنیا کو ایک عالمی گاؤں بنادینے سے عبارت تھا۔ جہاں بحروبر کا امتیاز ختم اورقوموں ،ملکوں کا فرق معدوم ہو جاتا ہے۔ دنیا کی تمام آبادی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور مربوط ہوجاتی ہے۔ مگر اس مغربی دعوے کے ساتھ ایک مسئلہ بھی اُبھر آیاکہ دل اور دماغ میں فاصلہ نہ ختم ہونے والا پیدا ہو گیا۔ مختلف قوموں کے درمیان برگشتگی کے سرد نہ ہونے والے جذبات جنم لینے لگے۔ دنیا یکسانیت کے زعم میں اٹھی تھی ، مگر اس نے امن کے بجائے جنگیں برپا کرنا شروع کردیں۔ چنانچہ دنیاجتنی تیزی سے ترقی کرتی جارہی ہے، اُتنی تیزیں سے جنگوں کی لپیٹ میں بھی جارہی ہیں۔
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
درحقیقت اس مسئلے نے یہ سمجھایا کہ قومیں اور نسلیں ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ ایک روحانی تقاضا ہے۔ انسانوں کے گروہوں، نسلوں ، قوموں ، زبانوں اور جغرافیائی خلیجوں کو ایک زبردست اجتماعی یگانگت کے تصور سے دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا ولولہ انگیز تصور جسے ملکی سرحدیں اور جغرافیائی حدیں تحلیل کرنے پر قادر نہ ہو۔ ظاہر ہے تب انسان کے اعضاء نہیں ، بلکہ اُن کی روحوں کو مخاطب کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قادرِمطلق کی جانب سے یہ عمل حجاز کے چٹیل اور وادی غیر ذی زرع میں شروع کیا گیا۔ جہاں رخ کرنے والے مختلف ملکوں ، نسلوں اور قوموں سے ہونے کے باوجود ایک تصور میں بندھ جاتے ہیں۔ ترقی کی گمراہیوں سے دامن بچاتے ہوئے اپنی روحوں کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ایک خالق کے آگے اپنی دنیوی پہچانوں سے پاک اور اپنی حقیقی پہچان یعنی عبدیت کے رنگ سے رنگ جاتے ہیں۔پھر زبانوں کا فرق باقی نہیں رہتا، نسلوں کا امتیاز جاتا رہتا ہے، قوموں کا جنون کافور ہونے لگتا ہے ۔ اللہ اللہ اب یہ وقت، رازونیازِ عبد ومعبود کا ہے۔
راز ونیازِ عبدومعبود میںکہیںکوئی تار یا بے تار جیبی فون کی ضرورت نہیں، یہاں زبان کی کوئی قید نہیں۔رابطے کے لیے کسی درمیان دار کی حاجت نہیں۔ یہ صرف دل کے عقیدے اور روح کے جذبے سے پکارنے اور سننے کا عمل ہے۔ یہ ملاقات ہے۔ دنیا و آخرت کی سب سے افضل ملاقات ۔ عبدومعبود کے درمیان ، خالق ومخلوق کے مابین۔ نہ وائر نہ وائر لیس، نہ فون نہ موبائل۔ بس ایمان کا ذریعہ ہی سب سے موثر ہے۔ اس عمل میں ملک اکٹھے ہیں۔قومیں مربوط ۔نسلیں اور زبانیںاپنے فرق سے بے نیاز ۔گورے کی کالے پر کوئی برتری نہیں، بادشاہ کا لباس ، فقیر کے لباس سے مختلف نہیں۔ محمود کو ایاز پر کوئی سبقت نہیں۔ انسانی اخوت اور نسلی مساوات اپنی اصلی صورت میں موجزن ہے ۔ یہ اسلام کی برکت ہے، یہ فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔ لبّیک، اللّٰھم لبّیک،لبّیک لاشریک لک لبّیک!!
اللہ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا یہ پہلا گھر اپنے عابدوں سے دور کیوں ہوگیا؟ عشق کی آنکھوں سے بہتے آنسو ، خشک کیوں ہوگئے؟محبت کے شعلوں سے اُٹھتی آہیں سرد کیوں پڑ گئیں؟دل سے نکلتی صدائیں سکوت کے ویرانوں میں مدہم کیوںپڑرہی ہیں؟کیا مقدس ندائیں گلوں میں پھنسی رہیں گی؟ کیا حج کا ترانہ زبانوں پر بے اظہار مچلتا رہے گا؟ہزاروں سال سے جاری راز و نیاز ِعبدو معبود کا الٰہی مقام اب بل گیٹس کی مرضی سے کھلے گا۔ اب مسلمانوں کی عبادتوں پر مغرب کے بدمعاشوں کے ضوابط کی پہرے داری ہوگی۔ مغربی آقا فرمان جاری کرتے ہیں کہ کورونا وبا ہے، چنانچہ آبِ زم زم اب انسان نہیں روبوٹ بانٹیں گے۔ تب جدیدیت کے تقاضے فتووں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ خطبوں میں گونجتے ہیں۔ اماموں کی منطق میں گویائی پاتے ہیں۔ یہاں فرقے فرق پیدا نہیں کرتے۔ بے دماغی طعنہ نہیں بنتی۔ شاہ دولہ کے چوہوں کی کوئی پھبتی سنائی نہیں دیتی۔ ایک وائرس کا راستا کسی سپر پاؤر کا ایٹمی بھی پروگرام روک نہیں پاتا۔چند لوگ رات کی تاریکیوں میں چمگاڈروں کے جاگنے کے وقت نئی دنیا کے نظام الاوقات طے کرتے ہیں، معبود کو پکارنے کی اجازت دینے نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر مسلم ملکوں کے حکمران کسی تحقیق کا روگ نہیں پالتے۔ اپنا کوئی ورلڈ ویو نہیں بناتے۔ نئی دنیا میں اپنے مقام کا تعین کرنے کے لیے اپنی کوئی دنیا نہیں بناتے۔ اپنی زندگی کا کوئی ثبوت نہیں دیتے۔ ان کی دولت اچھے محلوں ، بڑی گاڑیوں اور اللوں تللوں کے لیے ہیں۔ کسی تحقیق کے لیے نہیں۔ اپنے ارادے کو آزاد بنانے کے لیے نہیں۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے نہیں۔ عیاشیوں کے لیے اپنی زندگی سے دستبردار ہونے والے مسلم حکمرانوں کایہ جتھہ کردار میں کسی بیمار کے منہ سے نکلنے والی قے سے بدتر ہوچکا۔ ان کامتعفن وجود مسلمانوں کے لیے خطرہ بن گیا۔ آج کا خطبۂ حج ان سے نجات کا اعلان ہونا چاہئے اور کچھ نہیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔