’’ بک رہا‘‘ عید ۔۔
شیئر کریں
دوستو، آج بقرعید کا دن ہے، خوشیوں کا دن ہے، امت مسلمہ کے لیے ایسا مذہبی تہوار ہے جس میں خوشیاں منانے اور غریبوں، مسکینوں، رشتہ داروں ، عزیزواقارب کو اپنی خوشیوںمیں شریک کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔ بقرعید کو پاکستانیوں کی اکثریت ’’بکرا عید‘‘ بھی کہتی ہے۔اس کی وجہ کیا ہے ہماری تو سمجھ سے باہر ہے، ایک وجہ ممکن ہے کہ یہ ہو کہ اس روز بکرے قربان کئے جاتے ہیں تو اسے بکراعید کہاجانے لگا۔۔ ’’بقر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’ گائے ‘‘ہوتا ہے۔دنیا بھرمیں بسنے والی امت مسلمہ عیدالاضحی روایتی مذہبی عقیدت اوراحترام کے ساتھ مناتی ہے۔ اس دن سنت ابراہیمی کی ادائیگی کیلیے اللہ کی راہ میں جانور قربان کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیدالفطر کی آمد سے قبل جس طرح خواتین، بچے اور مرد حضرات شاپنگ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح عیدالاضحی کے موقع پر سجائی جانے والی مویشی منڈیوں میں لوگوں کا ہجوم دکھائی دیتاہے۔ہرکوئی اللہ کی راہ میں جانورکی قربانی کے لیے خریداری کرتا دکھائی دیتاہے۔ کوئی بکرا لیتا ہے توکوئی دنبہ، کوئی گائے لیتا ہے توکوئی اونٹ۔ اس موقع پرسب سے دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ بڑے توبڑے چھوٹے بچے بھی قربانی کے جانور کی خریداری میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔ واقعی یہ مناظراس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا بھرمیں بسنے والی امت مسلمہ کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی سنت ابراہیمی کوعقیدت، احترام اورجذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
کورونا کی تیسری لہر بڑی خطرناک واقع ہورہی ہے۔ کراچی میں تو بھارتی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، اس عید پر آپ تمام لوگ احتیاط کریں۔ کل محترمہ پڑوسن سے کہہ رہی تھی۔۔۔کورونا کی پہلی لہر میں یہ (شوہر) جھاڑوٗ، پونچھا، برتن، کپڑے سیکھ گئے۔دوسری لہر میں کھانا بنانا سیکھ گئے۔اب تیسری لہر میں یہ اچار، پاپڑ وغیرہ سیکھ جائے تو ان کا کورس پورا ہوجائے گا۔۔محکمہ صحت نے سندھ حکومت کو دس دن کے لیے مکمل ڈاؤن کی تجویز دی ہے، ساتھ ہی سفارش کی ہے کہ تمام کاروبار، بازار اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند کردی جائے ۔۔گزشتہ لاک ڈاؤن کے دوران موٹے موٹے آنسو آنکھوں میں بھر کر بیوی نے شوہر سے شکوہ کیا کہ ۔۔میری حیثیت تو اس گھر میں نوکرانی جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔شوہر کو حیرت کا جھٹکا لگا، بے ساختہ بول اٹھا، بیگم برتن اور کپڑے میں نے دھوئے، گھر کی صفائیاں میں کرتا رہا،یہاں تک کہ کھانا بھی میں نے بنایا پھر تم نوکرانی کیسے بن گئی؟ بیوی نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ نوکر کی بیوی نوکرانی تو ہی کہلاتی ہے۔۔
ملازم نے باس سے کہا۔’’سر، کیا مجھے کل کی چھٹی مل سکتی ہے؟ مجھے عید کی شاپنگ کے سلسلے میں بیوی کے ساتھ بازار جانا ہے‘‘۔۔۔باس نے غصے سے کہا۔۔ہرگز نہیں۔دیکھ نہیں رہے ہو، دفتر میں کتنا کام باقی پڑا ہے۔۔۔ملازم نے اطمینان کی گہری سانس لے کر کہا۔۔ بہت بہت شکریہ سر۔۔آج بقرعیدکا دن ہے۔ ۔آپ لوگ بھی کیا سوچ رہے ہوں گے کہ بکراعید پر یہ ’’بک رہا‘‘ ہے۔۔ہمارے نزدیک تو وہ بندہ بھی قربانی کے دنوں میں اہم ہوجاتا ہے جس کی عقل گھاس چرنے گئی ہو۔ چونکہ عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں اس لیے باباجی پہاڑی بکروں کی قربانی سے پرہیز کرتے ہیں۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ۔۔پہاڑوں پر رہنے کا حق شاہینوں کا ہے اور جو بکرا شاہین کی جائیداد پر قابض ہو،ایسے لینڈ گریبر، قبضہ مافیا بکرے میں اس سے بڑا عیب کیا ہوگا؟۔۔جس طرح سگریٹ کے ایک طرف شعلہ اور دوسری طرف بے وقوف ہوتا ہے، اسی طرح قربانی کے دنوں میں رسی کے ایک طرف بکرا اَور دوسری طرف بھی بکرا ہی ہوتا ہے۔ بکرا لینے سے پہلے کتنی بار انسان کو خود بکرا بننا پڑتا ہے۔باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔کوشش کریں کہ اس عید الاضحی پر اپنی انا کو قربان کر دیں جو ہر معاملہ پر بکرے کے طرح ’’میں میں‘‘ کرتی ہے۔۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ۔۔عید سے پہلے گوشت بازار سے اور برف فریج سے ملتی ہے عید کے بعد گوشت فریج سے اور برف بازار سے ۔ ۔باباجی نے بڑی عید پر عید کا بڑا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔اصل دوست وہ نہیں جو چھوٹے شاپر میں وڈا گوشت لائے بلکہ اصل دوست وہ ہے جو وڈے شاپر میں چھوٹا گوشت لائے۔۔
وصی شاہ کی معروف نظم، میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا۔۔ ہمارے پیارے دوست نے بکراعید کے حوالے سے اس نظم کی پیروڈی ہمیں بھیجی ہے۔۔ کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا، اور کسی نے نہ سہی تو نے مجھے پکڑا ہوتا۔۔ تو حنا لگے ہاتھوں سے مجھے پٹھے کھلاتی، تھوڑے تھوڑے نہیں سارے اکٹھے کھلاتی۔۔تومجھے میں میں کرکے بلاتی اور شام کو ساتھ گلی میں گھماتی۔۔میرے پاس گاڑی نہ سہی چھکڑا ہوتا، کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا۔۔ بلاجھجک مجھے آشنائے راز کرتی، اگر میرا رقیب تجھے چھیڑا کرتا،سینگ مارتا فوری اسے ٹکرکرتا،رات کو باہر سردی میں اکڑا ہوتا، کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا۔ پھر عید پر ذبح ہوجاتا میں، تیری خاطر کٹ مرجاتا میں، تیری محبت نے کچھ اس طرح جکڑا ہوتا، کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا۔۔باباجی کا کہنا ہے کہ ۔۔اگر قربانی کے جانور بول سکتے تو اِن بیوپاریوں کو وڈی وڈی گالیاں نکالتے جس وقت بیوپاری کہتے ہیں۔۔اس نوں مکھن تے دیسی گھی کھلا کے پالیا جے۔۔جس طرح پنجاب میں شیخ اپنی کنجوسی کی وجہ سے مشہور ہیں،اسی طرح کراچی میں میمن حضرات بھی کم نہیں۔۔ایک میمن دنبہ ذبح کرا رہا تھا۔۔ دُنبے کے پاس بیٹھ کر خُود کلامی کر رہا تھا۔۔ جگر اور گُردوں کی تو کڑاہی بنے گی،سینے کے گوشت کی بریانی،ران کے گوشت کی کڑاہی،نرم گوشت کے کباب بناؤں گا،چربی، سری پائے یخنی کے لیے الگ رکھوں گا،چمڑے کی جیکٹ بنواؤں گا،اُوٗن شال بنانے کے کام آئے گی۔۔۔قصائی چُھری پکڑے اس کی طرف مُڑا اور بولا۔۔حاجی صاحب! اسکی آواز بھی ریکارڈ کر لو، موبائل رنگ ٹون کے کام آئے گی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اسوہ ابراھیم قربانی کی عظیم داستان کی صورت بتاتا ہے کہ۔اس دنیا میں بغیر قربانی کچھ نہیں۔اس دنیا کا حسن یہ ہے کہ انسان اس تڑپ میں گزار دے کہ رب راضی ہو جائے۔ اور اس راستے میں سب کچھ قربان کر نے پر ہر لمحہ آ مادہ اور تیار رہے۔یہ ہے قربانی کی اصل روح۔جو اس وقت کھو چکی ہے۔جسے پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔