سورۃ یٰسین پڑھنے کے فضائل و برکات
شیئر کریں
سورۃ یٰسین جسے قرآنِ مجید کا دل کہا جاتا ہے اپنے اندر بے شمار فضائل و برکات ، فوائد و ثمرات اور بے پناہ منافع اور حکمتیں سموئے ہوئے ہے ، چنانچہ حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ کہتے ہیں کہ مجھے حضورِ اکرم ؐ کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ جو شخص سورۂ یٰسین کو شروع دن میں پڑھے اس کی تمام دن کی ساری حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں ۔ (مسند دارمی)
ایک روایت میں آتا ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا کرتا ہے اور قرآن مجید کا دل سورۂ یٰسین ہے ۔ جو شخص سورۂ یٰسین پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ اُس کے دس قرآن مجید کا ثواب لکھ دیتے ہیں ۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰسین کو آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے ایک ہزار سال پہلے پڑھا ، جب فرشتوں نے سُنا تو کہنے لگے کہ : ’’خوش حالی ہے اُس اُمت کے لئے جن پر یہ قرآن اُتارا جائے گا اور خوش حالی ہے اُن دلوں کے لئے جو اس کو اُٹھائیں گے یعنی یاد کریں گے اور خوش حالی ہے اُن زبانوں کے لئے جو اس کو تلاوت کریں گی ۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص سورۂ یٰسین کو صرف اللہ کی رضا کے واسطے پڑھے ، اُس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، پس اس سورت کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو!۔‘‘
ایک روایت میں آیا ہے کہ: ’’ سورۂ یٰسین کا نام تورات میں’’ منعمہ‘‘ ہے کہ اپنے پڑھنے والے کے لئے دُنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر مشتمل ہے اور اس سے دُنیا و آخرت کی مصیبت کو دُور کرتی ہے اور آخرت کی ہول کو دُور کرتی ہے ، اس سورت کا نام ’’رافعہ خافضہ‘‘ بھی ہے یعنی مؤمنوں کے رُتبے بلند کرنے والی اور کافروں کو پست کرنے والی ۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ : ’’میرا دل چاہتا ہے کہ سورۂ یٰسین میرے ہر اُمتی کے دل میں ہو ۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ: ’’ جس نے سورۂ یٰسین کو ہر رات میں پڑھا پھر مرگیا تو شہید مرا ۔ ‘‘ ایک روایت میں ہے کہ: ’’ جو شخص سورۂ یٰسین کو پڑھتا ہے اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اور جو بھوک کی حالت میں پڑھتا ہے وہ سیر ہوجاتا ہے اور جو راستہ گم ہوجانے کی وجہ سے پڑھتا ہے وہ راستہ پالیتا ہے اور جو جانور کے گم ہوجانے کی وجہ سے پڑھے تو وہ جانور کو پالیتا ہے اور جو ایسی حالت میں پڑھے کہ کھانا کم ہوجانے کا خوف ہو تو وہ کھانا کافی ہوجاتا ہے اور جو ایسے شخص کے پاس پڑھے کہ جو نزع (جان کنی)کی حالت میں ہو تو اُس پر نزع میں آسانی ہوجاتی ہے اور جو ایسی عورت پر پڑھے کہ جس کے بچہ ہونے میں دُشواری ہورہی ہو تو اُس کے بچہ جننے میں سہولت ہوتی ہے ۔‘‘مقریؒ کہتے ہیں کہ: ’’جب بادشاہ یا دُشمن کا خوف ہو اور اُس کے لئے سورۂ یٰسین پڑھے تو وہ خوف جاتا رہتا ہے ۔‘‘
ایک روایت میں آتا ہے کہ جس نے سورۂ یٰسین اور سورۂ صفت جمعہ کے دن پڑھی اور پھر اللہ سے دُعاء مانگی تو اُس کی دُعاء پوری ہوتی ہے ۔ (فضائل قرآن)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ جو شخص صبح کو سورۂ یٰسین پڑھ لے اس کو شام تک کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی اور جو شام کو پڑھ لے تو اُس کو صبح تک کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔‘‘ (اعمالِ قرآنی)
اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ میں سورۂ یٰسین کے خواص و برکات سے متعلق بے شمار آزمودہ اور مجرب واقعات ملتے ہیں اُن میں سے صرف ایک انتہائی عجیب و غریب واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے :
چنانچہ صاحب ’’فوائد الفواد ‘‘ فرماتے ہیں کہ : ایک مرتبہ مشہور بزرگ عالم امام ناصر الدین بستیؒ سخت بیمار ہوگئے اور اس بیماری میں آپؒ کو ’’سکتہ‘‘ کا مرض لاحق ہوگیا ، اعزہ و اقارب نے آپؒ کو مردہ تصور کرکے دفن کردیا ، رات کے وقت آپؒ کو ہوش آیا ، خود کو مدفون دیکھا ، سخت متحیر ہوئے ، اس حیرت و پریشانی اور اضطراب کی حالت میں آپؒ کو یاد آیا کہ : ’’جو شخص پریشانی کی حالت میں چالیس مرتبہ سورۂ یٰسین پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے اضطراب کو رفع کرتے ہیں اور اُس کی تنگی کو فراخی سے بدل دیتے ہیں ۔‘‘ آپؒ نے سورۂ یٰسین پڑھنی شروع کی ، ابھی اُنتالیس مرتبہ پڑھ چکے تھے کہ ایک کفن چور نے کفن چرانے کی نیت سے آپؒ کی قبر کھودنا شروع کی ، آپؒ نے اپنی فراست سے معلوم کرلیا کہ یہ کوئی کفن چور معلوم ہوتا ہے ، اس لئے چالیسویں مرتبہ آپؒ نے بہت دھیمی آواز سے اس طرح سورۂ یٰسین پڑھنا شروع کی کہ کوئی دوسرا شخص نہ سن سکے ، اِدھر آپؒ نے چالیسویں مرتبہ سورۂ یٰسین ختم کی تو اُدھر کفن چور بھی اپنا کام پوراکرچکا تھا ، آپؒ فوراً قبر سے اُٹھ کر باہر نکل آئے ، کفن چور نے اس طرح اچانک غیر فطرتی طور پر جب آپؒ کو قبر سے باہر نکلتے دیکھا تومارے ہیبت کے اُس کا دل پھٹ گیا اور وہ وہیں پرجاں بحق ہوگیا ۔
امام ناصر الدین کو خیال ہوا کہ اگر میں اس طرح فوراً شہر چلا گیا تو لوگوں کو سخت حیرت و پریشانی اور ہیبت لاحق ہوگی، اس لئے آپؒ نے ارادہ کیاکہ رات کو ہی شہر میں جانا چاہیے ، چنانچہ رات کے وقت آپؒ شہر میں داخل ہوئے اور ہر محلہ کے دروازے کے آگے جاکر پکارتے کہ : ’’میں ناصر الدین بستی ہوں ، تم لوگوں نے مجھے سکتہ کی حالت میں دیکھ کر غلطی سے مردہ تصور کیا اور دفن کردیا تھا، میں مردہ نہیں بلکہ زندہ ہوں ۔‘‘
مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس واقعہ کے بعد آپؒ نے قرآنِ مجید کی ایک تفسیر بھی لکھی ہے۔ (فوائد الفواد (مترجم) ص ۱۳۹)
الغرض سورۂ یٰسین ایک ایسی عظیم الشان سورت اور ایک ایسی نعمت بے بہا ہے کہ جس کی روزانہ تلاوت کرنے والا ، جس کا ہمیشہ ورد رکھنے والا ، جسے مشکلات و مہمات میں پڑھنے والا کبھی نامراد نہیں رہ سکتا ۔ دُنیا کی کوئی بھی پریشانی ہو ، مصیبت ہو ، دکھ ہو ، ہاری بیماری ہو ، بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں ، مصائب زمانہ نے گھر لیا ہو ، زمین اپنی کشادگی کے بغیر تنگ ہوتی نظر آتی ہو تو ، حاسدین و معاندین نے جینا دو بھر کردیا ہو ، دشمنوں اور ظالموں نے اپنے نرغے میں لے لیا ہو تو ان سب مہمات اور حالات میں سورۂ یٰسین کا بہ کثرت ورد کرنا اکسیر کا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ہمیشہ پڑھتے رہنا زہر ہلاہل میں تریاق کا کام دیتا ہے۔
٭٭…٭٭