
مقصدتوواضح ہے !
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
صدرٹرمپ نے تین خلیجی ممالک کے دورے سے امریکہ کے لیے اِتناکچھ حاصل کرلیا ہے ،جسے امریکی معیشت کے لیے تازہ خون قرار دیاجاسکتا ہے ۔وگرنہ چین کے گھیرائو میں الجھے امریکہ کی معیشت عشروں سے زوال پذیرہے اور بحالی کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہورہی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ آج امریکہ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اوراگر چینی سرمایہ نکال لیا جائے تو شایدہی معیشت سنبھل سکے ۔اسی بناپرتو محصولات بڑھانے کے باوجود چین سے امریکہ افہام و تفہیم کاراستہ بندنہیں کررہا۔ ٹرمپ نے پانچ روزہ خلیجی دورے سے اِتنا کچھ حاصل کرلیاہے جس سے اِن امیر ممالک کی جمع پونچی کے اہم حصے کی امریکہ منتقلی ہوجائے گی۔ اسلحہ فروخت کے ساتھ تین ٹریلین ڈالرز سے زائد کے سمجھوتے امریکہ اسلحہ سازکارخانوں سمیت دیگر صنعتوں میں اِس حدتک بہتری کا باعث بنیں گے جس سے امریکی معیشت کوکافی سہارا ملے گا۔ دورے سے جو دوسرا بڑا مقصدحاصل ہوگا۔ وہ یہ ہے کہ چین کی مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی مداخلت کی رفتار اب کسی حد تک سست ہو جائے گی ۔گزشتہ چند برس کے دوران سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے چین سے تعلقات بہتر بنائے ۔ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کرانے سے بھی چین کوخطے میں اہم مقام حاصل ہونے کاامکان پیداہوا۔ نیز برکس کی صورت میں جو امریکہ مخالف بلاک تشکیل پانے کی باتیں ہورہی ہیں، اُن میں بھی کسی حدتک کمی آئے گی کیونکہ ایک بار پھر خطے کے امیر ممالک کو امریکہ دفاع کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی بناپر تمام ترخدشات اور متبادل دستیاب ہونے کے باوجود معاہدے ممکن ہوئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممالک چین وبرکس کے باوجود آج بھی امریکہ پر انحصار کرتے ہیں ۔
خلیجی ممالک کے دورے سے قبل یا بعد میں ٹرمپ اسرائیل نہیں گئے اِس گریز پر کہاجارہا ہے کہ شاید ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکی معیشت کی پالیسی سے اسرائیل کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے مگر ایسے کسی خیال سے مجھے اتفاق نہیں آج بھی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفاد کا محافظ اسرائیل ہے جس نے عرب ممالک کے بدلتے تیور بھانپ کر عربوں کو امریکہ کی طرف ہانکا لگایا ہے۔ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ ہے کہ دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں جس غیر ملکی مہمان کا سب سے پہلے استقبال اور مہمان نوازی کی وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو ہیں جو عرب خطے میں امریکہ کے لیے اہم اور ناگزیر ہونے کا اشارہ ہے۔ اِس مہمان نوازی کے دوران ہی وزیرِ اعظم یاہو نے کہا کہ تمام امریکی صدور سے زیادہ ٹرمپ اسرائیلیوں کے دل کے قریب ہیں ۔یہ درست ہے کہ پہلی مدتِ صدارت کے دوران جب ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کا رُخ کیا تو اسرائیل جاکر انھوں نے دو اہم کام یہ کیے اول، تل ابیب میں موجود امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی کاافتتاح کیا دوم۔ شام کے حصے دفاعی حوالے سے اہم ترین علاقے گولان کی پہاڑیوں کو سرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کااعلان کیا خلیجی ممالک کادورہ مکمل کرنے کے بعد واپس وطن لوٹ جانے کو اسرائیل کے متعلق پالیسی میں تبدیلی قراردینا اِس بناپردرست نہیں کہ سعودی عرب میں میزبان ملک کو واضح الفاظ میں ہدایت کی کہ آپ کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا میری عزت افزائی ہے۔ شامی صدر کوپابندیاں ہٹانے کی نوید سناتے ہوئے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فرمائش کی جبکہ قطر میں بھی ہدایت و فرمائش کو دُہرایا عرب امارات کیونکہ پہلے ہی اسرائیل کا خطے میں ایک قابلِ اعتماد شراکت دار ہے۔ اِس لیے ایسی کسی ہدایت و فرمائش کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ دراصل صدرٹرمپ کاحالیہ دورہ مالی فوائد کے تناظرمیں ترتیب دیا گیا تھا۔ اسی لیے اسرائیل جانے سے اجتناب کیا ۔وگرنہ اُس کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہواہے کمی نہیں آئی۔
تحائف وصول کرتے ہوئے صدرٹرمپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ خلیجی ممالک کو زیادہ سے زیادہ سامان فروخت کیا جائے ۔عدمِ تحفظ کا شکار عرب ممالک کو ٹرمپ کی اسلحہ فروخت کرنے کی فیاضی لگی ہے۔ ٹرمپ نے معاہدے کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ اگر سرمائے کی ہمیں ضرورت ہے تواسلحے کی آپ کوبھی ضرورت ہے ۔حالانکہ یہ وہ اسلحہ ہے جوعرب ممالک کے لیے غیر اہم ہے کیونکہ اِسے استعمال کرنے کے لیے بھی وہ امریکہ کے محتاج رہیں گے اور کب امریکی اِس حوالے سے معذوری ظاہر کردیں اِس کا انحصار حالات پر ہے۔1973 کی جنگ میں جب مصر اورشام کی افواج نے روسی اسلحے سے اسرائیل کی کمر توڑدی تو وزیرِ اعظم گولڈامائر کی طرف سے جوہری ہتھیاراستعمال کرنے کی دھمکی پرہی نکسن انتظامیہ نے نڈھال اسرائیل کی آپریشن نکل گراس کے ذریعے مددکی اوراسلحہ سے بھرے طیارے روزانہ بڑی تعدادمیں اسرائیل آتے رہے کہ تیس اکتوبرکی جنگ بندی تک اسلحے کی قلت پوری کردی ۔سعودی عرب1932 میں اپنے قیام سے لیکر آج تک دوستانہ نشیب وفراز کے باوجود امریکہ کے لیے اہم ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جب عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی روش پر گامزن ہیں تو یہ اسلحہ وہ کِس سے لڑنے کے لیے خرید رہے ہیں؟ اِس سوال کا جواب سمجھ نہیں آتا اگر ایران سے مقابلے کی تیاری مقصود ہے تو ذہن یہ تسلیم نہیں کرتا آج ایران اِس حدتک کمزور ہوچکاہے کہ اپنے اہم ترین اتحادی بشارالاسدکی مددتک کی ہمت نہیں کرسکا اور اُنھیںاقتدارچھوڑ کر روس میں پناہ حاصل کرناپڑی۔ وہ تو حماس کوبھی بے یارومددگار چھوڑ چکا ہے۔ یمنی حوثی بھی حالات کے رحم و کرم پر ہیں ۔اسی بناپر اسلحہ معاہدے عربوں کے لیے غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں ۔البتہ اِن معاہدوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خطیر رقم امریکی معیشت کوبہترکر سکتی ہے ۔
ٹرمپ نے ہمیشہ جنگوں سے بے زاری ظاہر کی ہے۔ وہ پاک بھارت جنگ کاخاتمہ اپنی کوششوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔روس اور یوکرین میں جاری جنگ ختم کرانے کے لیے صدرپوٹن سے بات کرچکے ہیں ۔مگر جب غزہ پر اسرائیلی حملوں کی بات ہوتی ہے تو قحط کا اعتراف کرنے کے باوجوداسرائیلی حملوں کو مشروط کردیتے ہیں جن میں قیدیوں کی رہائی کے ساتھ حماس کی طرف سے آئندہ اسرائیل پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے۔ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو دہشت گردی تصور کرتے ہیں۔ حزب اللہ کی حمایت ختم کرنے اور جوہری معاہدہ نہ کرنے کی صورت میں ایران پر پابندیوں کی دھمکی دیتے ہیں۔ دراصل امریکہ کا دُہرا معیار ہے وہ مفاد کے تناظرمیں خیالات بدل لیتا ہے۔ عربوں سے دولت ہتھیانے میں ٹرمپ نے جس سفارتی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اَس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ ٹرمپ دورے کابس یہی مقصدقرین قیاس معلوم ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔