میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیراعظم، کابینہ کو سامنے بٹھانے کی بات ججوں کے منصب کے مطابق نہیں،وزیر قانون

وزیراعظم، کابینہ کو سامنے بٹھانے کی بات ججوں کے منصب کے مطابق نہیں،وزیر قانون

ویب ڈیسک
منگل, ۲۱ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ججوں کا اس طرح کی باتیں کرنا کہ کابینہ اور وزیراعظم کو سامنے بٹھا کر بات کریں گے ، میرے خیال میں یہ غیر مناسب باتیں ہیں، یہ باتیں نہ ججوں کے منصب کے مطابق ہے ، نہ میرا آئین و قانون اس کی انہیں اجازت دیتا ہے ،سوشل میڈیا سے متعلق بل کے لیے وزیر اعظم نے کمیٹی بنادی ہے ، ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق اتھارٹی قائم کی جارہی ہے ،ڈیجیٹل میدیا کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک میں قانون سازی ہوچکی،اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق بل کے لیے وزیر اعظم نے کمیٹی بنادی ہے ، ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق اتھارٹی قائم کی جارہی ہے ، ڈیجیٹل میدیا کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک میں قانون سازی ہوچکی، وزیراعظم نے کابینہ کی منظوری سے کمیٹی قائم کردی۔وزیر قانون نے کہا کہ کمیٹی کی سربراہی رانا ثنااللہ کریں گے ، جو حلقے تنقید کر رہے ہیں وہ ایک بار اسے پڑھ لیں، کمیٹی فریقین سے مذاکرات کے بعد تجاویز پیش کرے گی۔ا نہوں نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کے کام کرنے کے دائرہ کار واضح ہیں، سب نے اپنا کام کرنا ہے ، انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرے ، کسی کے حقوق پامال ہوں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔وزیر قانون نے کہا کہ اگر کوئی شخص لاپتا ہوتا ہے ، اس حوالے سے کوئی درخواست جاتی ہے تو عدالت جواب طلب کرتی ہے ، سرکار کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ جواب داخل کرے اور بتائے کہ وہ شخص اس کی حراست میں ہے یا نہیں، اگر معاملہ حل نہیں ہوتا تو قانون کے مطابق ایک ہی طریقہ ہے کہ پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست، شاعر احمد فرہاد شاہ کی گمشدگی کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے ، مجھے تکلیف ہوئی جس طرح کے ریمارکس میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، رپورٹ کے مطابق ایڈیشل اٹارنی جنرل نے بڑی وضاحت کے ساتھ کہا کہ وزارت دفاع نے اپنے متعلقہ اداروں سے پوچھا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہماری تحویل میں نہیں ہیں۔انہوںنے کہاکہ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کیونکہ ایف آئی آر درج ہوچکی ہے ، اس لیے پولیس کو وفاقی حکومت سے جس طرح کی مدد چاہیے ، وہ وفاقی حکومت فراہم کرے گی، لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ مسئلہ اس طڑح سے حل نہیں ہوگا، تفتیش سے حل نہیں ہوگا، سیکریٹری سارے آجائیں، وہ مطمئن نہیں کریں گے تو افواج پاکستان کے سینئر افسران آکے کھڑے ہوں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ اگر مطمئن نہیں کریں گے تو ہم وزیراعظم اور پوری کابینہ کو یہاں طلب کریں گے ، یہ عدالتوں کے مینڈیٹ نہیں ہیں، میں بڑے ادب سے عرض کروں گا کہ عدالتوں نے آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ جو بھی حکم ہو وہ عدالتی حکم کے ذریعے پاس کردیا جائے اور یہ جو طریقہ ہے کہ ایک سنسنی خیز خبریں باہر نکلیں، اور زیادہ بے چینی پھیلے ، ہمیشہ غیر مناسب رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالتیں حکم صادر کریں، اگر اس کی تکمیل نہیں ہوتی تو اس کا ایک طریقہ ہے کہ متاثرہ فریق اپیل میں چلا جائے گا، اگر کوئی اپیل میں نہیں جائے گا تو اس پر عمل درآمد کے لیے دیگر طریقے موجود ہیں۔انہوںنے کہاکہ میں نے صرف یہ جسارت کی ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنا کہ کابینہ کو بھی یہاں لاکر بیٹھا دیا جائے گا اور وزیراعظم کو بھی بٹھادیں گے اور سامنے بٹھا کر بات کریں گے ، میرے خیال میں یہ غیر مناسب باتیں ہیں، یہ باتیں نہ ججوں کے منصب کے مطابق ہے ، نہ میرا آئین و قانون اس کی انہیں اجازت دیتا ہے ، اگر عسکری ذمے داریاں، دفاعی، وزارتی اور وزیراعظم اور کابینہ کے کام بھی عدالتوں میں ہونے ہیں تو پھر نظام کیسے چلے گا، ہمیں اس بارے میں دوبارہ سوچنا پڑیگا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں