میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں پاکستانی ہندوؤں کے گھر مسمار

بھارت میں پاکستانی ہندوؤں کے گھر مسمار

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۱ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمد چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارتی میڈیا ریاست راجھستان کے علاقے جیسلمیر میں پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوؤں کے 50 سے زائد گھر تجاوزات قرار دے کر مسمار کردیے۔پولیس نے گھروں کو گرانے سے روکنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی ہندوؤں پر لاٹھی چارج کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس تشدد سے متعدد خواتین بھی زخمی ہوئیں۔ گھر مسمار ہونے سے 150 خاندان خواتین اور بچوں سمیت کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار رہنے پر مجبور ہیں۔اس سے قبل اپریل 2023 میں بھی پاکستان سے نقل مکانی کرکے بھارت جانے والے ہندوؤں کے 100 سے زائد گھر منہدم کیے جا چکے ہیں۔ یہ گھر راجھستان کے ضلع جودھ پور میں مسمار کیے گئے تھے۔
بھارت کے انگریزی اخبار ‘دی ہندو’ کے مطابق بھارت کی شہریت حاصل کرنے کے لئے ریاست راجستھان میں آنے والے تقریباً 800 پاکستانی ہندو 2021 میں پاکستان واپس چلے گئے۔بھارتی وزارت داخلہ نے سال 2018 میں شہریت کی درخواست کا آن لائن عمل شروع کیا تھا۔مئی 2021 میںبھارتی وزارت داخلہ نے 7 ریاستوں کے 16 کلکٹروں کو پاکستان کے ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں، پارسیوں، جینوں اور بدھسٹوں کو شہریت دینے کے لیے اختیارات دیئے تھے کہ درخواستیں قبول کریں لیکن پورٹل ان پاکستانی پاسپورٹوں کو قبول نہیں کرتا جن کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ اس کی وجہ سے مہاجرین اپنے پاسپورٹ کی معیاد بڑھانے کے لیے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن جانے اور وہاں بھاری رقم ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ وزارت داخلہ نے بتایا کہ آن لائن ماڈیول کے مطابق 10,365 درخواستیں وزارت کے پاس زیر التوا ہیں۔ یہ اعداد و شمار 14 دسمبر 2021 تک کے تھے۔ ان میں سے 7,306 درخواست دہندگان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ صرف راجستھان میں 25 ہزار پاکستانی ہندو ہیں جو شہریت حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ ان میں سے کچھ پچھلی دو دہائیوں سے منتظر ہیں۔ بہت سے لوگوں نے آف لائن درخواست دی ہے۔ تیرتھ کے ویزے پر آنے والے بہت سے لوگ اپنے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی بھارت میں مقیم ہیں۔ اس سال فروری تک پاکستانی ہندوؤں کو 600 لانگ ٹرم ویزے دیے گئے ہیں۔بھارتی حکومت کو 2018، 2019، 2020 اور 2021 میں پڑوسی ممالک کی 6 کمیونٹیز سے شہریت کی 8،224 درخواستیں ملی ہیں۔
آن لائن درخواست دینے کے باوجود درخواست دہندگان کو کلکٹر کے پاس جا کر دستاویزات جمع کروانے پڑتے ہیں جو ایک اضافی بوجھ ہے۔ بھارت میں پاکستانی ہندو تارکین وطن کے لیے کام کرنے والی تنظیم فرنٹیئر لوک سنگٹھن (ایس ایل ایس) کا دعویٰ ہے کہ شہریت کی درخواست کے بعد اس عمل میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے مہاجر ہندو پاکستان سمیت آس پاس کے ممالک میں واپس چلے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان چھوڑ کر جانے والے ہندوؤں کی بڑی تعداد پاکستان واپس بھی آ چکی ہے۔ گزشتہ برس بھی بھارت منتقل ہونے والے پاکستانی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد خاندان واپس پاکستان آگئے تھے۔ واہگہ بارڈر کے راستے سو سے زائد اندرون سندھ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو پاکستانی اپنی فیملیز کے ہمراہ واپس پہنچے۔ انکا شاندار استقبال کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔بھارت میں 11 پاکستانی ہندوئوں کے قتل اور بھارتی حکومت کے ناروا برتائو کے بعد ان خاندانوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ خاندان پاکستان سے مختلف مذہبی تہوار منانے کی آڑ میں بھارت گئے تھے لیکن بھارتی سرکار کی جانب سے ان کی کوئی مالی معاونت اور رہن سہن کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جس کے باعث انہیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان پہنچنے پر پاکستانی ہندو فیملیز کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان واپس آکر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ جبکہ بھارت میں انکے ساتھ بڑا ناروا سلوک کیا گیا۔ پاکستان میں وہ اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔ ہندو جیسومال ولد رادھوکچی اور رانو ولد رام جی کا کہنا تھا کہ بھارت ہجرت کرنے والے ہندو وہاں بہتر مستقبل کیلئے گئے تھے مگر انہیں وہاں قتل کر دیا گیا۔ بھارت صرف براہمن ہندوؤں کا ملک ہے۔ ہم حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھارت میں ہمارے گیارہ ہندو شہریوں کے قتل کا مواخذہ کرے۔ انہوں نے کہا بھارت میں مقیم پاکستانی ہندوؤں سے ہماری التجا ہے کہ وہ مزید ذلت گوارا نہ کریں اور واپس اپنے ملک لوٹ آئیں۔
سندھ کے ہندو خاندانوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں نچلے طبقے کے ہندوؤں کو انسان تک نہیں سمجھا جاتا ہے۔اسی سبب ایک سال قبل اپنی خوشی سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے خاندانوں نے واپس آکرپاکستان اور بھارت میں فرق بیان کرتے ہوئے مودی سرکار کے رویئے کے حوالے سے اہم انکشافات کئے ہیں۔ بھارت جانے والے ایک فرد مکھی شیوک رام کا کہنا تھا کہ ہمیں سہانے خواب دکھا کر ہندوستان بلایا گیا مگر وہاں ہمیں ذلت کے سوا کچھ نہیں ملا۔ مودی سرکار نے بھارت میں نچلے طبقے کے ہندوؤں کے لئے زمین تنگ کررکھی ہے۔ نچلی ذات کے افراد کو عبادت گاہوں میں نہیں جانے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیں آزادی ہے۔ ہم اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرتے ہیں۔ پاکستان میں مسلمان اپنے ہندو بھائیوں سے مل کر رنگوں کی ہولی مناتے ہیں لیکن بھارت میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ ہندوستان میں 70 فیصد بے گناہ مسلمان جیلوں میں قید ہیں لیکن پاکستان میں آپ کو ایک بھی اقلیتی شخص بے گناہ قید نہیں ملے گا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں