میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاک افغان کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں

پاک افغان کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۱ اپریل ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

ملک کے اندر سیاسی افرا تفری اور ہبڑ دبڑ کے ان ایام میں ملک دشمن عناصر نے امن و وحدت کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔ رواں سال مارچ تک سیکیورٹی فورسز سمیت 97 اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں، 7 اپریل کو افغان صوبہ نمروز سے ملحقہ پاکستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں سرحدی فضائی جائزہ لینے والے ایک اعلیٰ فوجی افسر کے ہیلی کاپٹر پر افغان حدود سے فائرنگ ہوئی، خوش قسمتی سے کوئی نقصان نہ ہوا۔ اسی ماہ 15 اپریل 2022ء کو شمالی وزیرستان کے مقام دتہ خیل میں پاک فوج کے قافلے پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کارندوں کا حملہ ایک اور اضافہ ہے، جہاں 7 جوان جان سے گئے۔ یقیناً جوابی کارروائی میں حملہ آور مارے گئے اور ایک تعداد فرار ہوگئی۔
دہشتگرد عملیات سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں، بلا شبہ ان گروہوں کے مقاصد بھی یہی ہیں، لہٰذا دونوں ممالک کو ایسی نوبت نہ آنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ دتہ خیل کے واقعے کے بعد افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ضلع ’’شلتن‘‘ اور صوبہ خوست کے ضلع ’’بسیرا‘‘ کے مختلف دیہات فضائیہ کی بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ ان صوبوں میں خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے نقل مکانی کرنیوالے خاندان بھی سکونت رکھتے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد قبائلی عوام نے گھر بار چھوڑ کر عارضی کیمپوں میں قیام کیا، ایک بڑی تعداد میں خاندانوں نے خیبرپختونخوا کے دوسرے علاقوں سمیت ملک کے دیگر شہروں میں رہائش اختیار کرلی، وہیں لوگ افغانستان بھی منتقل ہوئے، جن میں مسلح گروہ اور ان کے خاندان بھی شامل ہیں، چنانچہ پاکستان بجا سمجھتا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ گروہ افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں۔
واضح ہوکہ افغانستان پر روس اور 20 سالہ امریکی تسلط کے دوران پاکستان مخالف مسلح گروہوں کو کابل کی حکومتوں کی سرپرستی و پشت پناہی حاصل رہی ہے، خاص کر بھارت نے فوجی اور جاسوسی مقاصد و اہداف کے لیے افغان سرزمین کا آزادانہ استعمال کیا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ہر طرح سے امریکا کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں افغان سرزمین جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ہلاکت خیز حملوں کا نشانہ بنتی رہیں، بڑے پیمانے پر پشتون افغان مرد، بچے اور عورتیں کٹیں مریں، آبادیاں مسمار ہوئیں اور ایک بار پھر وہاں کے لوگ ہجرتوں پر مجبور ہوئے۔ امریکا نے کیا یہ کہ پاکستان کو بیدخل کرکے بھارت کو حصہ دار بنایا، چنانچہ پرویز مشرف رجیم کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا، جس کا خمیازہ ملک اور عوام آج تک بھگت رہی ہے۔
امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء و بھارت کی بیدخلی، اشرف غنی اور دوسرے امریکی کار پردازوں کے فرار کے بعد منظر نامہ یکسر تبدیل ہوا، مگر بدقسمتی سے نئی صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کا معاملہ حل کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاسکی نہ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ سے مذاکرات منطقی نتیجے پر پہنچ سکے۔ اس حقیقت میں بھی قطعی دو رائے نہیں کہ موجودہ کابل حکومت کسی بھی مسلح گروہ کی حمایت و تعاون نہیں کررہی بلکہ اسلام آباد اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی قبول کی ہے، ان گروہوں کو اب بھی بھارت کی کمک حاصل ہے، بلوچ شدت پسند ایران کی سرزمین بھی استعمال کررہے ہیں، ان سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ رواں سال فروری میں ایران میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند کمانڈروں کے درمیان پاکستان کے اندر مشترکہ کارروائیوں کی غرض سے اجلاس ہوا، گویا ان کے درمیان ہم کاری و روابط پیہم قائم ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ملاپ ہمسایہ ممالک کے جاسوسی اداروں کے تعاون کے بغیر نہیں ہے۔ غرض ان گروہوں سے یقینی بات چیت نہ ہوگی تو آئندہ صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔
پہلی حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ کوئی ایسا اقدام سرزد نہ ہو کہ جس سے پاکستان اور افغانستان کے مابین ناچاقی و بداعتمادی پیدا ہو، حاضر وقت 16 اپریل کو کنڑ اور خوست میں طیاروں کے ذریعے بمباری سے کابل اور اسلام آباد میں کشیدگی و تلخی بڑھی ہے۔ بتایا گیا کہ 50 کے قریب لوگ مرے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ افغان حکومت نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا، افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دفاع کے نائب وزیر ملا شیرین اخوند نے انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
کابل حکومت نے اپنے اعلامیہ میں بھی حملوں کی مذمت کی ہے، اسے افغانستان کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت و احترام کیخلاف اقدام قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس ذیل میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود تمام دہشت گردوں کیخلاف کارروائی سخت کرے، جو پاکستان کی سرحدی حفاظتی چوکیوں پر حملے کر رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ امریکا اور دوسری بڑی طاقتوں نے افغانستان کے بارے میں منافقانہ چال بازی کی پالیسی اپنا رکھی ہے، امریکا کے ڈر سے دنیا افغان حکومت کو تسلیم نہیں کررہی، پاکستان میں 22، 23 مارچ کو دو روزہ اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس کے انعقاد پر پاکستان کے اندر سے پیپلز پاٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشتبہ و متنازع بنانے کی کوشش کی، انہوں نے یہ کہا کہ عمران خان نے کانفرنس کا اہتمام افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے کیا ہے، اس سے ملک کی اعلیٰ قیادت کی ترجیحات اور سیاسی بلوغت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ نکتہ پیش نظر تھا تو اس سے اچھی بات اور پالیسی کیا ہوسکتی ہے۔کنڑ اور خوست حملوں کیخلاف افغانستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں، کابل حکومت اگرچہ گوناگوں مسائل سے دوچار ہے مگر اسے بہرحال پاکستان مخالف مسلح گروہوں پر نظر رکھنی ہوگی وگرنہ دونوں ممالک کے تعلقات میں خلل پیدا ہوگا، جس کا فائدہ لامحالہ تیسری، چوتھی اور پانچوی قوت اٹھائے گی۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بیانیہ دراصل تخریب کے اشارے ہیں، وگرنہ یہ اپنے تسلط کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا ہے۔
بلا شک یہ ممالک افغانستان میں شمال کے جنگجو?ں کی صف بندی کی نیت رکھتے ہیں، یعنی کابل حکومت کے پیش نظر یہ حساس پہلو بھی ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے ساتھ ملحقہ سرحدی پر افغان طالبان اور پاکستانی فورسز کے درمیان ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں، چمن میں باب دوستی کے قریب مسلح جھڑپیں ہوئیں، جس میں دونوں جانب سے جانی نقصان کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے بعد چاغی کے علاقے برامچہ میں 3 افغان طالبان فائرنگ سے زخمی ہوئے، جس کے بعد طالبان 2 پاکستانی اہلکاروں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سات اپریل کو پاکستان کے مذکورہ فوجی ہیلی کاپٹر پر افغان حدود سے ہونے والی فائرنگ کے بعد تنا? میں مزید اضافہ ہوگیا، یہاں تک کے واقعہ پاکستان کے اندر بھی کشیدگی کا سبب بنا، پاکستانی اہلکاروں نے سرحد پر سختیاں شروع کردیں، پاکستان سے کھاد افغانستان لے جانے والی سینکڑوں گاڑیوں کو روکا، ڈرائیور اور عملے کو پیدل واپس جانے کا کہا گیا، جنہوں نے 50 کلو میٹر ویران صحرائی راستہ بمشکل پیدل طے کرکے جانیں بچائیں۔اسی ماہ 14 اپریل کو نہ رکنے پر ایک گاڑی پر فائر کھولا گیا، جس سے ڈرائیور جاں بحق ہوا، لواحقین اور گاڑیوں کے ڈرائیور لاش لے کر نوکنڈی میں فورسز کے کیمپ کے سامنے پہنچے جہاں فورسز کے ساتھ تصادم ہوا، فائرنگ سے 9 مظاہرین زخمی ہوئے، اس کے بعد 18 اپریل کو چاغی میں اسی طرز کا احتجاج ہوا اور فورسز و مظاہرین آمنے سامنے آگئے، اس تصادم میں بھی 8 افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں