بھارت میں بربریت کی انتہا، مودی سرکارنے مسلمانوں کی املاک پربلڈوزرچلادیے
شیئر کریں
بھار ت میں دہلی میونسپل کارپوریشن نے نوٹس کے بغیر جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے دروازوں سمیت بہت سی املاک کو مسمار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس کارروائی کو روکنے کے احکامات جاری کیے تھے، تاہم اس کے باوجود توڑ پھوڑ کی کارروائی جاری رہی۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں بدھ کی صبح اچانک مسلم اکثریتی علاقے جہانگیر پوری میں پولیس فورسز کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) نے توڑ پھوڑ کی کارروائی شروع کر دی اور آنا فانا مقامی جامع مسجد کی دیوار اور دروازوں سمیت آس پاس کی بہت سی دکانوں کو بھی مسمار کر دیا۔چند روز قبل اسی علاقے میں مسلم مخالف فسادات ہوئے تھے، جس میں جھڑپوں کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد ہی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما نے اس علاقے میں کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایم سی ڈی سے کہا تھا کہ وہ فسادات میں ملوث افراد کی املاک کو تباہ کر دے۔ دہلی میونسپل کارپوریشن نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروائی غیر قانونی تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی تھی اور کسی کے حکم پر ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔ تاہم مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس سلسلے میں پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور صبح توڑ پھوڑ شروع ہونے کے بعد انہیں اس کا علم ہوا۔جہانگیر پوری میں ہندوں کی بھی آبادی ہے، تاہم توڑ پھوڑ جامع مسجد کے علاقے میں کی گئی اور اس کی زد میں بیشتر مسلمانوں کی املاک آئی ہیں۔ کارروائی شروع ہوتے ہی مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ سے کارروائی روکنے کے لیے رجوع کیا۔عدالت نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے فوری طور پر اسے روکنے کا حکم دیا، تاہم حکام کے مطابق انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا ہے اور انہوں نے توڑ پھوڑ کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ چند گھنٹے بعد جب عدالت کا حکم جہانگیر پوری میں کارروائی کرنے والے حکام تک پہنچایا گیا تب عمارتیں ڈھانے کا عمل روک دیا گیا۔سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والی تنظیم جمعیت علما ہند کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ”افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا، اور اس بہانے سے املاک ڈھانے کا عمل جاری ہے کہ انہیں ہدایات کا انتظار ہے۔ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی زیرِ اقتدار ریاستوں میں حکام نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے اس نئی پالیسی پر عمل شروع کر رکھا ہے، جس کے تحت فساد برپا کرنے والوں کے مکانات کو مسمار کرنا ہے۔ اس کی ابتدا ریاست یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ان مسلمان مظاہرین کے خلاف کی تھی، جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد کسی تفتیش یا عدالتی کارروائی کے بغیر ہی مقامی انتظامیہ مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرا کر ان کے املاک تباہ کر رہی ہے ماہرین کے مطابق جمہوری طرز حکومت میں اس طرح کی سزا غیر قانونی اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ لیکن سخت گیر اور قوم پرست ہندو اس کی ستائش کرتے ہیں۔ یو پی کے بعد سے بی جی پی والی ریاستوں میں متعدد بار مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی کی جا چکی ہے۔ جب بھی کوئی فساد ہوتا ہے، تو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان مسلمانوں کا ہوتا ہے، تاہم اس کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد کی جاتی ہے اور پھر انہیں کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔چند روز قبل ہی کی بات ہے ریاست مدھیہ پردیش میں رام نومی کے جلوس کے دوران تصادم کے واقعات کے بعد کھرگون کی ضلعی انتظامیہ نے شہر کے پانچ علاقوں میں مکانوں اور دکانوں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کی تھی۔یہ تمام مکانات اور دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ وہاں کے کم از کم 45 مکانوں اور دکانوں کو مسمار کیا جاچکا ہے، جن میں 16 مکانات اور 29 دکانیں شامل ہیں۔ کئی حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی کے باوجود ریاستی حکومت نے اس کارروائی کو درست ٹھہرایا ہے۔