پاناما فیصلہ :وزیر اعظم کو کلین چٹ نہ مل سکی
شیئر کریں
جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا
جے آئی ٹی کے قیام کے لیے ایک ہفتہ جبکہ تحقیقات کے لیے دوماہ کی مہلت، وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں تقریر میں قوم سے جھوٹ بولا اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے،دوججز کے اختلافی نوٹ
ابومحمد
آخر کار پاناما کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی یہ تاریخ رقم کرے گاکیونکہ فیصلہ جب آیا تو ابتدا میں بیشترلوگ مخمصے کا شکار ہوتے ہوئے عدالت سے مایوس ہوگئے اور ایسا لگا کہ جیسے فیصلہ ملزمان کے حق میں ہوا ہو،تاہم جیسے جیسے تفصیل آتی گئی تو مخمصہ دور ہوتا محسوس ہوا اور پتا چلا کہ فیصلے میں گہرائی ہے اور یہ بھی پتا چلا کہ کیس ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ عدالت نے نوازشریف اور انکی بیٹی و بیٹوں کے جوابات کو مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی بناکر ملزمان سے تفتیش کا حکم دیا ہے جبکہ بینچ سربراہ سمیت 2ججز صاحبان اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیر اعظم نے بددیانتی کی لہٰذا وہ نااہل ہیں ۔
بہر حال فیصلے کے بعد دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی ،ایک طرف ن لیگ کے رہنماﺅں اور حامیوں نے بھنگڑے ڈالے ،مٹھائیاں تقسیم کیں جبکہ دوسری جانب نوازشریف کی نااہلی کے درخواست گزاروں یعنی عمران خان ،شیخ رشیداورسراج الحق نے بھی فیصلے کو اپنے موقف کی فتح قراردیتے ہوئے کہا کہ تمام ججز نے نوازشریف کے جوابات کو مسترد کرتے ہوئے مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے ،لہذاوزیر اعظم کو چاہیے کہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لیے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں۔پاناما کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم نواز شریف اور ا±ن کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بنیں۔پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے پاناما لیکس کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔جبکہ 5میں سے 2ججز نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے وزیر اعظم کو نااہل قراردے دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز یہ فیصلہ عمران خان، سراج الحق، شیخ رشیداور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ ان درخواستوں پر دیا جن میں وزیراعظم سمیت چھ افراد کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بینچ کا 547 صفحات پر مشتمل فیصلہ ایک اکثریتی فیصلہ تھا اور بینچ کے سربراہ سمیت دو ججوں نے اس میں اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف اسٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ جسٹس آصف سعید اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ا±ن کے بچوں کی طرف سے اس ضمن میں پیش گئے ثبوت اور بیانات کو یکسر مسترد کر دیا۔ان دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں قوم سے جھوٹ بولا اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اسی اختلافی نوٹ میں الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کو فوری طور پر نااہل قرار دے کر ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو ڈی نوٹیفائی کرنے کو کہا گیا ہے۔
ججوں کی اکثریت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر رینک کا افسر کرے جبکہ اس ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اورا سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے دو تجربہ کار افسران شامل ہوں گے۔
عدالت نے متعلقہ اداروں کے سربراہان کوایک ہفتے کے اندر اندر ٹیم کے لیے اپنے نمائندوں کے نام دینے کا حکم دیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دو ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی اور اس عرصے میں ہر دو ہفتوں کے بعد پیش رفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف اور ا±ن کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بنیں اور جب ضرورت پڑے تو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ ٹیم اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی جس کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس اس رپورٹ کی روشنی میں الگ بینچ تشکیل دیں گے جو وزیر اعظم کے خلاف شواہد ہونے کی صورت میں ان کی نااہلی کے معاملے کا بھی جائزہ لے سکے گا۔
سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر 1۔تاریخ سے ایک ورق
28 نومبر1993ءکو پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا ‘فل’ بینچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا۔سماعت اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ آج عدالت اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے۔عدالت میں موجود وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کمرہ عدالت سے باہر جانے کی اجازت چاہی۔ جب عدالت نے خواجہ آصف کو عدالت سے جانے کی اجازت دی تو چند لمحوں بعد سپریم کورٹ کی راہداریوں سے شور بلند ہونا شروع ہوا۔ایسے لگا کہ کچھ لوگ عدالت کی عمارت کے اندر نعرے بازی کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ آوازیں کورٹ نمبر ایک کے قریب تر آگئیں۔ کمرہ نمبر ایک میں موجود حاضرین جو ایک سنجیدہ ماحول میں عدالت کی کارروائی میں منہمک تھے شور سن کر اضطراب کا شکار ہو گئے۔یک لخت دو صحافی زاہد حسین اور فخر الرحمان کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخل ہوئے۔ فخرالرحمان نے بلند آواز میں کہا ”مائی لارڈ !وہ آ رہے ہیں“۔
اس پر بینچ کے سربراہ سجاد علی شاہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،تھینک یو شاہ صاحب اور عدالت برخاست ہوگئی۔ ججوں کے عدالت سے نکلنے کے چند منٹوں میں سینیٹر سیف الرحمٰن کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم عدالت میں داخل ہوگیا اور سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔راولپنڈی سے مسلم لیگ کے ایم پی اے سردار نسیم نے فخر الرحمان پر حملہ کر دیا جن کی مداخلت سے مسلم لیگی ’غنڈوں‘ کے ہاتھ ججوں کے گریبان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔اس وقت ایک اور صحافی فراز ہاشمی کی مداخلت سے فخر الرحمان کی پٹائی تو بند ہوگئی لیکن نہ سجاد علی شاہ وہ فیصلہ سنا سکے جو وہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ لکھ کر ساتھ لائے ہوئے تھے۔
لارجر بینج کے جسٹس صاحبان کا مختصر تعارف
5 رکنی لارجر بینچ کے حتمی فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم رہی، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔اس اہم ترین کیس کی سماعت کرنے والے اور فیصلہ سنانے والے معزز جج صاحبان سے متعلق جانیے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ
2010 میں سپریم کورٹ تک ترقی پانے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما لیکس کے بعد وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی کی۔
ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے جسٹس کھوسہ 18 سال سے زائد عرصے میں 50 ہزار کے قریب کیسوں کے فیصلے سنا چکے ہیں۔وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے دو ججز میں سے ایک جسٹس آصف سعید کھوسہ تھے۔
جسٹس گلزار احمد
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اعزازی سیکریٹری منتخب ہونے سے قبل جسٹس گلزار نے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔
2002 میں جسٹس گلزار احمد سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے اور فروری 2011 میں وہ سندھ ہائی کورٹ کے سینئر پیوسنے جج مقرر ہوئے۔
نومبر 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔جسٹس گلزار احمد اختلافی نوٹ لکھنے والے دوسرے جج تھے۔
جسٹس اعجاز افضل خان
1977 میں خیبر لاءکالج سے گریجویٹ کرنے والے جسٹس اعجاز افضل خان 1991 میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے انرول ہوئے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے 9 سال ذمہ داریاں نبھانے والے جسٹس اعجاز 2009 میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے بعد 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر ترقی پاگئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن
پنجاب یونیورسٹی لاءکالج سے ایل ایل بی کرنے والے جسٹس اعجاز نے اپنی پوسٹ گریجویٹ تعلیم نیویارک کی کورنیل یونیورسٹی سے حاصل کی، انہیں 2009 میں بینچ تک ترقی دی گئی 2011 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے قصور، گجرانوالہ، اور لاہور ڈسٹرکٹس میں انسپیکشن جج کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2015 میں جسٹس اعجاز الاحسن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور جون 2016 میں سپریم کورٹ تک ترقی پائی۔
جسٹس شیخ عظمت سعید
جسٹس شیخ عظمت سعید 1980 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے انرول ہوئے اور اس کے اگلے ہی سال سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایڈووکیٹ کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے 1997 میں احتساب بیورو میں خصوصی پراسیکیوٹر کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں متعدد ہائی پروفائل کیسز کی پیروری کرنے والی قانونی ٹیم کے رکن رہے۔وہ 2001 میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے خصوصی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں، انہیں 2004 میں لاہور ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا گیا۔2012 میں جسٹس شیخ عظمت سعید نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جج کے عہدے پر ترقی پائی۔