نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کے فیصلے پر پاکستان بار کی ہڑتال دوسرے روز بھی جاری
شیئر کریں
پاکستان بار کونسل کی اپیل پر نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ملک بھر میں وکلا کا عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ دوسرے روز بھی جاری رہا،وکلا نے سندھ ہائی کورٹ کے گیٹ پر دھرنا دے دیا ہے ۔وکلا کی ہڑتال کے باعث سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید قائم علی شاہ کو سندھ ہائی کورٹ کے دروازے پر روک لیا۔ مقدمے کے اندراج میں سیکشن 22 اے کا اختیار سیشن عدالت سے واپس لینے کے خلاف پاکستان بار کونسل کی اپیل پر ملک بھر میں وکلاء کی جانب سے عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ جاری ہے ،سندھ بار کونسل اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے سندھ ہائیکورٹ کے گیٹ پر دھرنا دے رکھا ہے ۔وکلا نے سرکاری وکلا اور پرائیویٹ وکلا کو عدالتوں میں پیش ہونے سے روک دیا ہے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو بھی ہائیکورٹ کے گیٹ پر روکا گیا ہے ، وکلا نے قائم علی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی وکیل ہیں عدالت کے اندر نہیں جاسکتے ، وکلا ء کا ساتھ دیں۔جس پر قائم علی شاہ نے جواب دیا کہ میں اس وقت تو ملزم کی حیثیت سے پیشی پر آیا ہوں،جس پر بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے کہا کہ آپ ملزم ہیں تو عدالت کے اندر جاسکتے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ سمیت ملیر بار اور صوبے کی دیگر عدالتوں میں جمعرات کو دوسرے روز بھی مکمل طور پر عدالتی امور کا بائیکاٹ کیا گیا، تمام کورٹس کی تالا بندی کرکے وکلا نے احتجاج جاری رکھا ہے ۔وکلاء کامطالبہ ہے کہ 22اے اور 22بی کا اختیار واپس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جسٹس آف پیس کو دیا جائے ۔ادھر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بھی وکلا کا 22اے قانون میں ترمیم کے خلاف عدالتی کارروائی کابا ئیکاٹ تیسرے روزبھی جاری رہا۔وائس چیئرمین بلوچستان بار کونسل راحب بلیدی نے بتا یا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں وکلا کا بائیکاٹ نیشنل جو ڈ یشل پالیسی میں ترامیم کے خلاف کیا جا رہا ہے اور وکلا تیسر ے روز بھی عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ 22 اے قانون میں ترمیم کا مقصد ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانا ہے ، ایف آئی آر کے اندراج میں سیشن جج کی بجائے پولیس کے اختیارات میں اضافہ کیا جا رہا ہے ۔راحب بلید ی کا یہ بھی کہنا ہے کہ 22 ا ے میں پولیس کے حق میں ترمیم کسی صورت قابلِ قبول نہیں اور وکلا اس صورت حال پر بھرپور احتجاج کریں گے ۔