میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رویہ

رویہ

جرات ڈیسک
منگل, ۲۱ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

ابھی ہماری ریاضت نیم شب کو صبح ملنے میں بہت دیر ہے۔ انصاف نہیں اس لیے معاشرے میں شفافیت کا منتر بھی پھونکا نہ جاسکے گا۔ ابھی ڈاکٹر عاصموں، شرجیل میمنوں اورزرداروں سے ہمارا پیچھا چھوٹنے والا نہیں۔ سامنے ٹی وی کا پردہ جگمارہا ہے اور ایک میزبان بدعنوانیوں پر ہمارے ردِ عمل کو بیش وبہت ثابت کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ تقسیم درتقسیم کے شکار،آخر ہمارا کیا بنے گا؟رعایت انفرادی معاملے میں ہوتی ہے۔نظمِ اجتماعی میں انفرادی اور گروہی رعایتیں معاشرے کے تاروپود کو بکھیر دیتی ہے۔ قانون کی ضرورت تب ہی تو پڑی تھی جب معاشرہ انصاف کے باب میں امتیاز کا شکار تھا۔اب بھی کچھ مختلف نہیں ، تمیز ِبندہ وآقا پر قائم یہ نظام ناکام ہے۔ اس میں جمہوریت اور آمریت کی کوئی تخصیص نہیں۔
ہمارا مسئلہ جمہوریت یا آمریت نہیں بلکہ ہمارا وہ رویہ ہے جو گروہی طور پر بن چکا ہے۔ اور جو ہر نظام میں ایک ہی طرح بروئے کار آتا ہے۔ ایسے بھی معاشرے ہیں جو جمہوریت کے بغیر پروان چڑھے اور ایسے سماج بھی ہیں جہاں جمہوریت نے اپنی بہاریں دکھلائیں مگر ہم دونوں ہی نظاموں میں ناکام نامراد ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ نظام ہمیں کچھ نہیں دے سکتے بلکہ اس لیے کہ ہم ان نظاموں کو بھی اپنے رویوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے آمر ایوب خان نے کہا تھا کہ فوج کو نظمِ اجتماعی میں کودنا نہیں چاہئے اور اگر کودے تو پھر اُسے اپنا کردار آدھا اور ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ جمہوریتوں کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔ اُس کا کردار بھی کبھی معاشرے میں مسلسل اور مکمل نہیں رہا۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں قیام ِ امن کے لیے فوج پوری طرح دخیل ہے۔ ابھی ابھی تاج حیدر نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ہم مردم شماری کا معمولی کام بھی نہیں کرپارہے۔ یہ اُسی جماعت کے خوشہ چین ہے جس نے دوسال قبل فوجی عدالتوں کی تائید کی تھی۔تب چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دوسال بعد اس کی تائید کرتے ہوئے یہ آنسو بھی نہیں رہے۔ حیلہ جوئیاں اور جوازآرائیاں تھیں۔اس پر اعتزاز احسن کی اُکتا دینے والی گفتگو مستزادہے۔یہ ہماری جمہوریت کا احوالِ واقعی ہے۔
مسئلہ کرپشن کا ہو تو دیکھنے والی آنکھ اِسے آمریت اور جمہوریت کے خانوں میں کیسے تقسیم کر سکتی ہے؟ مگر ہمارے ٹی وی کے جادوگر میزبان ایسا کردکھاتے ہیں۔ اسپاٹ فکسنگ اور شرجیل میمن کے باب میں رویہ یہ ہے کہ ردِ عمل حد سے زیادہ ہے۔ پھر کیا کیجیے گا؟کرپشن کا مرض ہو تو اُنہیں جمہوریت کی اوڑھنی اوڑھا دیں۔ جمہوریت خود اتنا بڑا مقصد ہے کہ اس کے لیے معاشرے کے تمام امراض گوارا کرلیے جائیں یا ہم جمہوریت کا منجن اس لیے بیچتے ہیں کہ اس میں معاشرے کے تمام امراض کے علاج ہیں۔ افسوس نا ک امر یہ ہے کہ قومی ریاستوں کے اس زوال آمادہ عہد میں جمہوریت کی تکریم دراصل خود کارپویٹوکریسی(کارپوریشن کی صنعتی اشرافیہ) کا کامیاب منتر ہے۔ مغرب میں اب اس پر آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ہمارا دانشور طبقہ فکر کے مغربی لنڈا بازار سے اُترنیں بھی مغرب کی پہنتا ہے اور اُگلے ہوئے نوالے چباتا ہے۔ جمہوریت کے لیے دیے جانے والے آج کل کے دلائل مغرب میں پامال ہو چکے۔ پاکستان میں اُن دلائل کی چاندماری سے اب دسترخوانی قبیلہ دانشور طبقہ ہے۔
جوہری طور پر یہ مسئلہ جمہوریت یا آمریت کے نظام سے نہیں ہماری افتادِ طبع سے جڑا ہے ۔ ہم بدعنوانی کو روا رکھنا چاہتے ہیں اس لیے اِسے جمہوریت کی آڑ میں گنجائش فراہم کرتے ہیں ۔ گستاخی معاف آمریت کے پروردہ دانشوروں کا مرض بھی یہی ہے۔ وہ جب بدعنوانیوں کے مرض کی نشاندہی کرتے ہیں تو نشانہ بدعنوانی کو نہیں جمہوریت کو بناتے ہیں ۔ دونوں رویوں میں ایک ہی طرح کا تعفن ہے۔ نظام میں نہیں یہ اُصول کی سطح پر بات واضح کی گئی۔ بنی مخزوم کی ایک عورت کے لیے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے الفاظ گونجتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے لیے یہی معیارِ انصاف بھی ہیں اور شفافیت کی بنیاد بھی۔ روایت ہے کہ ایک عورت نے چوری کی، وہ اونچے خاندا ن کی عورت تھیں۔ سماج طبقاتی ذہن سے ہمیشہ سوچتا آیا ہے۔ مگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بنائے معاشرے میں ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔لوگوں نے کہا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے حضرت اُسامہ ؓ کے سوا کوئی بات کرنے(سفارش) کی ہمت نہیں کرسکتا۔حضرت اسامہؓ لوگوں کے زور دینے پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور اس سلسلے میں بات کی۔تب حضرت محمد مصطفی ﷺ نے وہ الفاظ ادا کیے جسے سماج کی بقا میں دائمی اُصول کے طور پر ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ فرمایا: اسامہ ٹہرو!بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک وبرباد ہوئے کہ جب اُن میں سے کوئی اونچے درجے کا آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور اگر اُن میں کوئی نچلے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتے۔اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔“
سماج جرائم کی تشریح میں طبقاتی ہوجائے تو وہ ختم ہونے سے پہلے اپنی تکریم کھودیتا ہے۔ ہم اُس مرحلے میںداخل ہوچکے۔ جہاں جرائم کا جواز نظام کی تکریم کے نام پر دیا جاتا ہے۔ اور یہ معاشرے کے معمولی لوگ نہیں بلکہ روشن دماغ لوگ کررہے ہیں۔ اب شرجیل میمن کی بدعنوانیوں کو جمہوریت کی خاطر گوارا کیجیے۔ وہ جمہوریت جس میں ”بھٹو کبھی مرتا نہیں“ ۔جس میںجناب زرداری اپنے ایام صدارت میں فوجی سربراہ کے توجہ دلانے پر کہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ پیسے بنائیں اُنہوں نے طویل عرصہ” قربانیاں“ دی ہیں۔افسوس ناک طور پر توجہ دلانے والے فوجی سربراہ (سابق) کا ماجرا بھی مختلف نہ نکلا۔ ایک ہی طرح کا تعفن ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ جس میں مختلف صف آرا قوتیں ایک دوسرے کی بدعنوانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف مطلب برآری کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ شرجیل میمن کی ذہنیت اسی مٹی سے بنی ہے۔ اُنہوں نے اپنی برہنہ بدعنوانیوں کا جواز یہ کہہ کر دیا ہے کہ کسی کو شریف خاندان کی بدعنوانیاں نظر نہیں آتیں۔ اب اس پر کوئی کیا بات کرسکتا ہے؟ہماری ریاضت نیم شب کو صبح ملنے میں بہت دیر ہے۔شفافیت کوئی مستقل قدر نہیں رہ گئی یہ گروہی تعبیر میںاُلجھی ہوئی ہے۔ہم اس پر جتنا کُڑھیں گے ، سامنے جمہوریت کی گردان سنائی دے گی اور ہم عامی دکھائی دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں