
مرتضیٰ جتوئی کو ہتھکڑی ؟
شیئر کریں
عطاء اللہ ذکی ابڑو
1983 ء میں ایم آرڈ ی تحریک کے سرخیل سابق وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی کے بڑے فرزند اور سندھ سے ایم آر ڈی تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مرتضیٰ جتوئی کسی تعارف کے محتاج نہیں، سترہ فروی کو نوشہرو فیروز عدالت میں اپنی ضمانت کے لیے آنے والے 70 سالہ مرتضیٰ جتوئی کے ہاتھ میں جب ہتھکڑی لگی دیکھی تو ایم آرڈی تحریک کے بعد ایوانوں میں رس گھولنے والا ایک اور نعرہ کہ بندوقوں والے ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے ۔ یاد آگیا، جی ہاں یہ وہ دور تھا جب بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی بھٹو کی بیٹی کے پیچھے پڑے تھے ۔ زیڈ اے بھٹو کو کال کوٹھری میں دھکیلنے اور چار اپریل انیس سو انناسی کی علی الصبح پھانسی کے بعد سندھ کا منظرنامہ یکسر بدل چکا تھا۔ ایک آمر کیخلاف ایم آرڈی تحریک اپنے عروج پر تھی ۔یہ وہی نوشہرو فیروز ہے کہ جہاں نیوجتوئی سے نکلنے والا سیکڑوں خواتین پر مشتمل قافلہ جب مورو شہر پہنچتا ہے تو مڈ بھیڑ میں سات پولیس اہلکار مارے جاتے ہیں۔ ان پولیس والوں کا کیس بھی اس وقت ایم آرڈی تحریک کو لیڈ کرنے والے غلام مصطفٰی جتوئی اور غلام مرتضیٰ جتوئی پر درج کیا جاتا ہے ؟ تب بھی یہ وہی ہتھکڑی تھی جو شہید بھٹو سے جتوئی خاندان کے عہد وفا کی خود گواہ تھی ، مگر تاریخ کا دھارا جب بدلتا ہے تو کئی رخ دکھاتا ہے، ہم صرف وہی دیکھتے ہیں جو ہمیں نظر آتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے جب جتوئی خاندان شہید بھٹو کا عَلم اٹھائے ایک آمر سے نبردآزما تھا اور آج ؟ مرتضٰی جتوئی کو پیپلزپارٹی کے جبرکا سامنا ہے ۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے سکرنڈ پولیس کی زیر حراست ایک نواز زرداری نامی شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے ، سکرنڈ اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مظہر زرداری ابتدائی پوسٹ مارٹم میں انکشاف کرتے ہیں کہ نواز زرداری کے جسم کے کئی حصوں پر تشدد کے نشانات ہیں یہ قتل سکرنڈ پولیس کسٹڈی میں ہوا اس کا کون ذمہ دار ہے ؟ اپنے گناہ کا خود اعتراف کرنے والے نواززرداری کا لاک اپ میں قتل خود زرداری قبیلے کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے ؟ ماورائے آئین قتل کی یہ داستان ہمیں انتخابات کے دوران بھی نظرآئی ہے۔ نواب شاہ شہر کی نشست پر تین افراد بے گناہ قتل کردیئے جاتے ہیں ؟ آج تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے ؟ پچھلے انتخابات کے دوران نوشہروفیروز کی ایک پولنگ پر فائرنگ کے دوران بلاول زرداری نامی شخص نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے ؟ پولیس اس بات کی تصدیق بھی کرچکی ہوتی ہے کہ وہاں موجود جتوئیوں کے گارڈز پولیس حصار میں ہیں اور ان کے پاس جو اسلحہ موجود ہے اس سے ایک گولی بھی فائر نہیں ہوئی ؟ مگر پھر بھی اس کا مقدمہ بے گناہ جتوئی خانوادوں پر درج کرادیا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ ہر اس شخص کے لیے ٹیسٹ کیس ہے جو شہید بھٹوز کے بعد بننے والی پیپلزپارٹی کا مخالف ہے۔ آج شہید بھٹوز کا اصل وارث کون ہے ؟ اورکون گڑھی خدابخش کی قبروں سے فائدہ اٹھانے والا، یہ فسانے ہر زبان زد عام ہیں؟
پیپلزپارٹی کے تاریخ گواہ ہے کہ شہید بھٹوز نے اصولوں کے لیے عوام سے محبت میں ہمیشہ قبرستان بھرے اور ان کے نام پر سیاست کرنے والے والوں نے تجوریوں سے اپنے گھر؟ مرتضٰی کی گرفتاری کا منظرنامہ پس پردہ وہ تلخ حقائق ہیں جو سندھ دھرتی والوں سے اوجھل نہیں ؟ جی ہاں یہی وہی مرتضٰی جتوئی ہیں جو جی ڈی اے کی تحریک میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں، سندھ صوبہ کا کوئی مسئلہ ہو وہ کسی محاذ پر پیچھے نہیں ہٹے ۔آج بھی گرین پاکستان کے نام پر ہاریوں کا لہو نچوڑ کر سندھو دریا پر بننے والی چھ کینالز کیخلاف جی ڈی اے ، فنکشنل لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر سراپا احتجاج ہیں۔ اس کڑے وقت میں مرتضٰی جتوئی کی رہائی کے لیے جی ڈی اے کی صرف بیان بازی تک مذمت پر صرف جی ڈی اے سے ہی سوال نہیں، ایک سوال نواب شاہ کے باشندے سے بھی بنتا ہے ؟ جتوئی صاحب ہم نواب شاہ والے بھی شرمندہ ہیں اس شہر کی تعمیر و ترقی، لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ، بچیوں کے لیے میڈیکل کالج اور اسکولوں کے قیام ، ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ، صحت کے بنیادی مرکز سول اسپتال جیسی سہولیات آج جتوئی خاندان کی ہی مرہون منت ہے ۔مرتضٰی جتوئی کو جب بی سیکشن لاکپ لایا گیا وہاں موجود پولیس افسران میں سے یقینا کوئی ان ہی کے دور میں بھرتی بھی ہوا ہوگا ؟ مگر کیا کریں یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی !یہاں جس چیز کی آبیاری کریں وہ اپنے ہی محسن کے لیے کانٹوں کی سیج بنتا ہے ؟ مرتضٰی جتوئی کو جب اے ٹی سی میں ہتھکڑیاں لگا کر کورٹ میں پیش کیا جارہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سندھ پولیس نے کچے سے معرکہ سر کیا ہے۔ کوئی نامی گرامی ڈاکو گرفتار کیا ہے ، کوریج کے لیے آنے والے صحافیوں سے پولیس کا نارواسلوک بیان کریں تو اس کے لیے ایک الگ کالم درکار ہوگا، آہ وقت کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اسی خاندان کی بدولت اپنے فیتے بڑھانے والے پولیس افسران ڈریں اس وقت سے کہ جب انہیں کبھی تقدیر نے پلٹ کا آئینہ دکھانا چاہا تو یہ اسی خاندان کو سلیوٹ مارتے ہوئے کتنی شرمندگی محسوس کر رہے ہوں گے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ انسان کو انتقام کی آگ میں اتنا بھی اندھا نہیں ہونا چاہیے کہ جب وقت کا دھارا بدلے تو اسے کہیں سائبان بھی میسر نہ ہوسکے۔