عقل کے فیصلے جب ہوں جذبات سے
شیئر کریں
ملک میں سیاسی بحران مزید سنگین ہونے سے جمہوریت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوگیاہے جس سیمحب ِ وطن شہریوں میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے ۔لگتاہے سیاستدانوںکو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں اسی تناظرمیںصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ الیکشن کے لیے حیلے بہانے تلاش کیے جا رہے تھے ا س کی آڑمیں آئین سے کھلواڑکیا جارہاہے ۔اس لیے مجھے خط لکھنا پڑا، الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے معاملہ ایک دوسرے پر ڈالا جا رہا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے الیکشن کی تاریخ دینے پر جرمانہ ہو جائے گا، ملک میں اس وقت اتحادی حکومت نہیں بلکہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے کوئی سہارا مل رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عارف علوی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے ملکی حالات مزید خراب ہوں گے، الیکشن میں تاخیر کے معاملے پر میں گورنرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔
اس صورت حال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کی تاریخ کے معاملے میں صدر مملکت کو مشاورت میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کمیشن نے صوبوں کے انتخابات سے متعلق ایوان صدر کو مشاورتی عمل کا حصہ بنانے سے معذرت کرلی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے سیکرٹری ایوان صدر کو بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ گورنر دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت صوبہ پنجاب اور کے پی کے گورنرز کو خط لکھا اور دونوں گورنرز نے تاحال الیکشن کے لیے تاریخ نہیں دی، دونوں صوبوں میں عام انتخابات سے متعلق معاملات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ، آئین کے مطابق کسی بھی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں پولنگ کی تاریخ دینے کا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار نہیں ہے ۔خط میں کہا گیا ہے کہ صدر کا عہدہ ریاست کا سب سے بڑا آئینی عہدہ ہے، کمیشن کو اس کا بہت احترام ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن نے دونوں اسمبلیوں کے گورنر سے انتخابات کے لیے تاریخ مانگی تاہم تاحال یہ تاریخ نہیں دی گئی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ میں عام انتخابات کی تاریخ کے حوالہ سے گورنر پنجاب سے ملاقات کی تاہم گورنر پنجاب نے یہ موقف اپنایا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے پابند نہیں کیونکہ انہیں بطور گورنر اس سے استثنیٰ حاصل ہے، اس بنا پر کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ سے مزید رہنمائی بھی طلب کر رکھی ہے۔ جبکہ پشاور ہائی کورٹ میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے حوالے سے تین درخواستیں زیرسماعت ہیں۔ آئین الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی صوبائی اسمبلی کے گورنر کی جانب سے تحلیل یا آئین کے آرٹیکل 112 ون کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں ازخود انتخابات کی تاریخ دیں ۔سب سے دلچسپ بیان وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دیتے ہوئے کہاہے کہ صدر عارف علوی ‘آبیل مجھے مار’ والے کام نہ کریں، آئین کی حد میں رہیں۔ عارف علوی صدر کے دفترکو بلیک میلنگ کا اڈہ نہ بنائیں، الیکشن کی تاریخ دینے سے صدرکا کوئی لینا دینا نہیں، عارف علوی الیکشن کی تاریخ کے معاملے میں خواہ مخواہ ٹانگ نہ اڑائیں۔ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ صدر الیکشن کمیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات پر مجبور نہیں کرسکتے، الیکشن کمیشن آپ کا غلام نہیں کہ جو آپ کہیں وہ مانے ، عمران خان نے معیشت، خارجہ تعلقات اور قومی مفادات کو نقصان پہنچایا، عمران خان اب ریاستی سربراہ کے منصب کو سازش کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سیاسی بحران سنگین کرنے میں وفاقی وزیر ِ اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کمال کردیا وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ عارف علوی نے آئین شکنی کی تو آرٹیکل 6 کا سامنا کرنا ہوگا ۔ ایک بیان میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ایوان صدر ایوان سازش بن چکا ہے، آئین کو ٹھوکر ماری تو عارف علوی صدر نہیں رہیں گے اور عارف علوی نے آئین شکنی کی تو آرٹیکل 6 کا سامنا کرنا ہوگا۔ لہٰذا عارف علوی صدربنیں، عمران خان کی کٹھ پتلی نہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی کی وفاداری آئین سے ہونی چاہیے، وہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے پہلے ہی آئین شکنی کرچکے ہیں۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، ہم اسے عمران خان کی ٹائیگرفورس نہیں بننے دیں گے، دباؤ ڈال کر غیرآئینی طورپرالیکشن کی تاریخ لینے کی کوشش ہورہی ہے، سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق صدرکا عہدہ علامتی ہے۔ عارف علوی صاحب اپنی آئینی اوقات میں رہیں، خواجہ آصف صدر پر برس پڑے ،ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ عارف علوی صاحب اپنی آئینی اوقات میں رہیں، الیکشن کمیشن کی آئینی حدود میں تجاوز نہ کریں اور سیاست نہ کریں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ عارف علوی اپنی نہیں تو اپنے عہدے کی عزت کا خیال کریں، عارف علوی یاد رکھیں وہ صدر کے عہدے پر 2018 کی سلیکشن کے نتیجے میں قابض ہوئے۔
آج کل یوں لگتاہے ہر شخص گرم ہے جیسے جیسے گرمی کا موسم آرہاہے، سیاستدانوںکے مزاج بھی گرم ہوتے جارہے ہیں ۔ اس طرح تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما بھی کسی سے پیچھے نہیں وہ بھی ماحول گرم کرنے کا کوئی موقع ضائغ نہیں کرتے حالانکہ یہ کام تو مولانا فضل الرحمن نے انپے ذمہ لے رکھاہے عوام نے تو پہلے ہی عدم برداشت کی حدیں کراس کرلی ہیں ۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں جن سیاسی و قومی رہنمائوںکا مقصد آگ بجھانا ہوتا تھا وہ جلتی پر تیل ڈال کر تماشادیکھنے کی تاڑ میں ہیں، سب کو حالات کی سنگینی کااحسا کرنا چاہیے۔ ملک تو پہلے ہی نازک حالات سے گزررہاہے اس ماحول میں عقل کے فیصلے جذبات سے کیے گئے تو نتائج بڑے بھیانک برآمدہوسکتے ہیں کیونکہ آج مخالفین ایک دوسرے پراس قدرطیش میں ہیں جیسے وہ دشمن کی فوجوںکو للکاررہے ہیں۔ اسی وجہ سے سیاسی کارکنوںکے دل و دماغ یکطرفہ اندازمیں سوچتے ہیںجس سے دلوںمیں کدورتوںمیں اضافہ ہوتاجارہاہے، دشمنیاں بڑھ رہی ہیں ۔اس پر قابو نہ پایا گیا تو خدانخواستہ خانہ جنگی جیسا سماں پیداہو سکتاہے۔ ہمارے ازلی دشمن یہی چاہتے ہیں
عقل کے فیصلے جب ہوں جذبات سے
خاک سلجھیں گے مسئلے ۔۔۔ دوستو