دہشت گردوں کے سرے بلوچستان ، اور شمالی وزیرستان کیوں؟
شیئر کریں
ہم بدترین معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ہماری عیاشی بھی عروج پر ہے ، ہماری اشرافیہ عوام سے دور اپنے محفوظ خوشحالی کے جزیرے میں ہر طرح کے فوائد سمیٹنے میں لگی ہے ، اور عوام ان سب سے بے نیاز ان سیاست دانوں کی کٹھ پتلی بنے ہیں ، جو انھیں بھوکا ننگا رکھ کر نچا رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاست دانوں، عدلیہ ، جرنیلوں، صنعتکاروں نے ایکا کرلیا ہے ، اور وہ عوام کو ہر طرح سے مل کر لوٹ رہے ہیں،ان کے منافع دولت،لوٹ مار کی کوئی حد ہے نا حساب۔ملک پر نا اہل سیاست دان، اور ان کے سرپرست قابض ہیں ، اور عوام کو دن بدن مشکل ترین امتحان میں ڈال رہے ہیں، ترقی اور خوشحالی خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
عوام بھی بہت اچھے نہیں ہیں، وہ بھی جانتے بوجھتے ان نا اہل سیاسی لیڈروں کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ بھی چھوٹی موٹی چوری چکاری میں ملوث ہیں، وہ ان پارٹی سے اس لیے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے برے کرتوتوں میں ان کا ساتھ دیں گے ۔دوسری جانب ناکارہ بیوروکریسی ہے ، جو اپنی مراعات تنخواہوں ، پروٹوکول میں مگن ہے، وہ اس ڈوبتے ہوئے ملک کو بچانے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں، اور نہ ہی انھیں اس ملک کو سدھارنا ہے ، ان کے پاس بیرونی ملکوں کے پاسپورٹ، شہریت، اور ویزے ہیں، وہ جب چاہیں اس ملک کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، اور اپنے اس خیال پر قائم ہوں کہ جس طرح انگریز کی پالیسی برصغیر میں یہ رہی کہ” لڑاؤ اور حکومت کرو” ۔ اب اس ملک کے کرتا دھرتا بھی اس نظریہ اور خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جب ملک کے عوام پر کوئی نیا ٹیکس، بجٹ، مہنگائی، پیٹرول کے نرخوں، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے ، جس سے عوام کی چیخیں نکلنے لگیں، اور ان میں بغاوت، یا احتجاج کی لہر اٹھے تو ملک میں کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوجائے ، جس سے عوام کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ جائے ،گزشتہ دنوں جب پیٹرول کی قیمت پر ایک ہی ہلہ میں 35 روپے کا اضافہ ہوا تو ہمیں اگلے دن سو سے زائد لاشیں اٹھانی پڑیں، پورے ملک میں کہرام مچ گیا، اور ہم پیٹرول بم کی تباہ کاریوں کو بھول گئے ، اب منی بجٹ آیا تو کراچی میں سی سی پی او کے دفتر پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا، اور اب ہم اس حملے میں سیکورٹی کے نا ہونے ، غیر ملکی ہاتھ، اور دہشت گروں کے نیٹ ورک میں الجھے ہوئے ہیں، ہمیں نہ آئی ایم ایف کی شرائط یاد ہیں، نہ ہمیں یہ اندازہ ہے کہ اس اتحادی ٹولہ کے وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے ۔ آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے سب سے کڑی شرط سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا۔ جس کا براہ راست اثرعام آدمی کی زندگی پر پڑے گا، روپے کی قوت خرید یوں بھی بہت کم ہے ، اب سو روپے میں سے اٹھارہ روپے سیلز ٹیکس کی مد میں جانے پر ، سو روپے کی قیمت خرید کیا رہ جائے گی۔ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا گیا ہے ۔سگریٹ اور مشروبات، سیمنٹ،ایئر لائن ٹکٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی ،انکم ٹیکس کی کیٹیگری میں شادی اور دیگر تقریبات پر دس فیصد کے حساب سے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے ۔ دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ، لیکن حکومت کی رٹ کہیں بھی نہیں ہے ، دودھ کی قیمت میں ایک دم 20 روپے کلو کا اضافہ کردیا گیا ہے ، دودھ 210 روپے کلو ہے ، آٹا مارکیٹ میں 130 روپے کلو ہے اور روٹی کی قیمت 25 روپے ہوگئی ہے ۔یہ بات طے ہے کہ امیر اور طاقتور حکمران اشرافیہ ہی ہمیں تباہی کے ان گڑھوں کی طرف لے جارہی ہے ۔ وہ اس ملک کی تمام دولت اور گاڑیاں، زمینیں اور قرضے ، مراعات اور پروٹوکول اور امداد اور سبسڈی کو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے لوٹ رہے ہیں، پاکستان کے عام شہری کو اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ سرکاری افسران،سول اور فوجی حکام ، عدلیہ کے ججوں ، سیاست دان، وزراء ، ممبران پارلیمنٹ کو دی جانے والے متعدد خود ساختہ فوائد، مراعات اور سہولیات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے ۔
سرکاری گاڑیاں اور پیٹرول ، کا استحقاق صرف اشرافیہ کو کیوں حاصل ہے ؟ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے افسران نے ایسی ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری گاڑیاں اپنے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ کیا ایسی سہولیات برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا ، بھارت جیسے ملک میں حاصل ہیں؟ہم نے بحریہ، ڈی ایچ اے ، دفاعی منصوبوں کے نام پر جو کاروبار شروع کر رکھا ہے ، اسے اب بند ہونا چاہئے ، کل ہی33 برس بعد سپریم کورٹ نے آرڈیننس فیکٹری منصوبے کے متاثرین کو زمین کی مارکیٹ ریٹ پر ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے حکومت اور وزارت دفاع کی کم قیمت پر زمین کی خریداری کی اپیلیں مسترد کی ہیں۔حکومت نے عوامی منصوبوں کے متاثرین کو جائز حق دینے کیلئے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ عوامی منصوبوں کے متاثرین کے تنازعات کے ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 1990 میں ضلع اٹک کے تین دیہات 29ہزار کنال زمین 30ہزار روپے فی کنال خریدنے کا نادر شاہی حکم دیا گیا تھا۔
نا انصافی اور ظلم حد سے زائد بڑھ جائے تو لوگ دہشت گردی کی طرف نکل جاتے ہیں، ہماری سیکورٹی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہئے ، جس میں انھوں نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف مزید حملوں کی دھمکی دی ہے ، اور کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کو چاہئے کہ غلام فوج کے ساتھ ہماری جنگ سے دور رہیں۔ کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق شمالی وزیر ستان سے بتایا جارہا ہے ، ہمارے حکام کو سوچنا چاہئے کہ دہشت گردوں کے سرے بلوچستان ، اور شمالی وزیرستان سے کیوں ملتے ہیں۔
٭٭٭