میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا ججوں کا طرز عمل پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے

کیا ججوں کا طرز عمل پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے

منتظم
بدھ, ۲۱ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ججوں کے طرزعمل کو پارلیمنٹ اور دیگر فورموں پر زیربحث لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ججوں کے طرز عمل پر التواء اور استحقاق کی تحریکیں اور قراردادیں پیش کریں۔کیا ججوں کے طرز عمل پر پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے ؟پارلیمنٹ کے وہ کون سے امور ہیں جن پر عدالتوں میں سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ؟اس سلسلے میں آئین کا کیا کہتا ہے ؟کیا اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی طرز عمل اختیار کرسکتے ہیں ؟سب سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ضابطہ اخلاق کا ذکر کریں گے۔کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل2کہا گیا ہے کہ ایک جج کو اللہ سے خو ف کھانے والا ،قانون کا پابند ،پرہیز گار ،زبان کا دھنی ،رائے دینے میں ذہین ،محتاط ،بردبار ،الزامات سے پاک اورلالچ سے ماوراہونا چاہیے۔جج کو کھردراہوئے بغیر مضبوط ہونا چاہیے ،اسے کمزوری دکھائے بغیر نرم مزاج ہونا چاہیے ،اس کی وارننگ احترام کے دائرہ میں رہتے ہوئے متاثر کن ہونی چاہیے اور اسے اپنے الفاظ کے ساتھ دیانتدار ہونا چاہیے ،اسے ہمیشہ پرسکون ،متوازن اور غیر جانبدار رہنا چاہیے ،اس آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے عدالت کا وقار برقرار رکھنے کے لیے محتاط ہونا چاہیے۔ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ 11آرٹیکلز پر مشتمل ہے جن میں سے آرٹیکل2کے کچھ حصوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔عوام باالخصوص وکلاء اور سائلین اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسداری کی امید رکھتے ہیں۔جو لوگ کوڈ آف کنڈکٹ سے آگاہی رکھتے ہیں ،بسا اوقات ان کے ذہن میں بعض ججوں کے رویہ کے حوالے سے سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔سچائی تک پہنچنے کے لیے جج صاحبان ایسے ریمارکس بھی دے دیتے ہیں جن سے مقدمہ کا کوئی ایک فریق اپنے لیے منفی معنی اخذ کرلیتا ہے اور یوں وہ ریمارکس اس کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ان ریمارکس اور عدالت میں ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کے منافی رویہ کے خلاف لوگوں کے پاس دادرسی کا کوئی فورم موجود نہیں ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف کارروائی کا سپریم جوڈیشل کونسل کے نام سے ایک ہی آئینی ادارہ ہے جس کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہیں جبکہ اس کے تمام ارکان بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل209کے تحت صدر مملکت کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج سکتے ہیں ،اس آرٹیکل کے تحت کسی ذریعہ سے ملنے والی اطلاع پر سپریم جوڈیشل کونسل کو از خود کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہے۔اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا کسی جج کے رویہ کے خلاف پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے ؟اس حوالے سے آئین کا آرٹیکل 68بہت واضح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کسی جج کے طرز عمل کی بابت پارلیمنٹ میں کوئی بحث نہیں ہوگی۔دوسرے لفظوں میں مقدمات کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان جو بھی رویہ اختیار کریں اس کے خلاف پارلیمنٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح چیف جسٹس صاحبان اور دیگر جج صاحبان اپنے انتظامی فرائض کی انجام دہی کے لیے جو رویہ اختیار کرتے ہیں اسے بھی پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ججوں کے کردار اورعدلیہ کے عمومی رویہ کو پارلیمنٹ میں زیربحث لایا جاسکتا ہے ؟آئین کی منشا تو یہی نظر آتی ہے کہ ان معاملات کو پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں لایا جاسکتا۔اگر کسی جج کے حوالے سے حکومت کے پاس ثبوت ہیں تو اس کے خلاف کارروائی کے لیے صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

قومی اسمبلی کے ا سپیکر کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے ،اس لیے اس بات کا موہوم کا امکان موجود ہے کہ قومی اسمبلی میں ا سپیکر کی طرف سے اس معاملہ پر بحث کی اجازت مل جائے تاہم سینیٹ میں اس بابت کسی تحریک کی چیئرمین کی طرف سے پذیرائی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ایسی صورتحال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان ججوں کے طرزعمل کو پارلیمنٹ میں زیربحث لانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔کیا عدالتی کارروائی کی بجائے ججوں کے عمومی رویہ پر بحث کی کوشش کی جائے گی۔مسلم لیگ (ن) کے مذکورہ فیصلہ کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ انہیں پارلیمنٹ میں ججوں کے طرز عمل کے حوالے سے بحث کی اجازت ملے گی بھی یانہیں۔پارلیمانی پارٹی کا یہ فیصلہ کہیں مسلم لیگ(ن) کی سبکی کا باعث تو نہیں بنے گا؟

دستور پاکستان میںآئین کی تشریح کا اختیار اعلیٰ عدلیہ کو دیا گیا ہے ،یہ دیکھنا بھی عدلیہ کا کام ہے کہ کوئی قانون آئین سے متصادم تو نہیں ہے۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ خود بھی آئین کی تشریح کی مجاز ہے جیسا کہ آئین کے باب پنجم میں آرٹیکلز 260،261،262،263اور264موجود ہیں جومختلف توضیحات اور تشریحات پر مشتمل ہے۔پارلیمنٹ خود بھی آئین اور مختلف مروجہ قوانین کی تشریح کرسکتی ہے تاہم اس کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوگی ،جیسا کہ آئین میں ترمیم کے لیے دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

جس طرح ججوں کے رویہ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا،اسی طرح عدالتیں بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کی تحقیقات نہیں کرسکتی ہیں۔اس سلسلے میں دستور میں آرٹیکل 69شامل کیا گیا جس کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی پر ضابطہ کار میں بے قاعدگی کی بنا پر عدالت میں اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا ،اسی طرح پارلیمنٹ کا کوئی افسر یا رکن جسے آئین یا ضابطہ کار کے ذریعے انصرام کارروائی کو منضبط کرنے یا پارلیمنٹ میں امن برقرار رکھنے کے اختیارات تفویض کیے گئے ہوں ، اس کی جانب سے ان اختیارات کے استعمال کی بابت عدالت کو اختیار سماعت حاصل نہیں ہے۔عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں آئین کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر فرائض کی انجام دہی کی پابند ہیں ،مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں عدلیہ کے حوالے سے جو فیصلہ کیا گیا ہے اس کے بعد آئینی حدود کی پامالی اور پاسداری کے نئے نئے نظریات اور تشریحات سامنے آئیں گی جو ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے حوالے سے مورخین کو نیا مواد فراہم کریں گی ۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں