محافظ چل بسا۔۔۔۔!
شیئر کریں
پیر13فروری کی شام مطالعہ سے فراغت کے بعد ٹی وی پر خبریں سننے لگا ۔ پنجاب اسمبلی کے باہر کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کااحتجاج ہورہا تھا۔ چونکہ یہ احتجاج انتہائی اہم مقام اور شاہراہ پر ہورہا تھا اس لیے نیوز چینلز کی تمام تر توجہ اس ایونٹ پر مرکوز تھی ۔ انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو احتجاج ختم کرنے کی تلقین ہورہی تھی کہ اس دوران دھماکے کی بڑی خبر ٹی وی پر نشر ہوئی ۔ کچھ ہی دیر میں ہلاکتوں کی اطلاع دی گئی ۔ ایک خبر نگار کی حیثیت سے میری پوری توجہ نیوز چینلز پر مرکوز ہوئی۔ اگلے ہی لمحے ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور دیگر اہلکاروں کی شہادت کی افسوسناک خبر آئی۔ سو دکھ اور افسردگی نے مجھے گھیر لیا۔ کسی بھی انسان کی موت اور شہادت پر دکھ فطری بات ہے مگر جب اپنے اور جاننے والے بچھڑتے ہیں تو یہ لمحہ بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ابھی فکر وتردد میں مبتلا تھا کہ کوئٹہ میں دھماکے کی نمایاں نیوز نشر ہونا شروع ہوگئیں اور کچھ ہی دیر میں کمانڈر عبدالرزاق کی شہادت کی اندوہناک خبر نے کانوں کے پردے کو چھوا۔ سچ پوچھئے تو دیر تک مجھ پر سکتہ طاری رہا کہ کمانڈر عبدالرزاق سے بہت پرانا، بہت اعتماد اور بہت محبت واحترام کا تعلق تھا۔ احمد مبین سے دید و شناسائی بچپن سے تھی۔ اس نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ پبلک اسکول سے حاصل کی ۔ ہم بھی اسی اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر کرار حسین کا آرچر روڈ پر کلینک تھا ۔ کرار حسین مرحوم مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے ۔ انسان دوستی ان کی شہرت تھی ۔ میرے والد محترم (مولانا نیاز محمد درانی مرحوم) اور ڈاکٹر کرار حسین مرحوم کے درمیان یارانہ تھا۔ علمی و فکری محفلوں میں ان کے ساتھ شریک ہوتے۔ جب بھی ان کے درمیان ملاقات ہوتی تو تادم نشست مسکراہٹیں بکھری رہتیں۔
احمد مبین فوج میں گئے وہاں سے بحیثیت کیپٹن ریٹائرڈمنٹ لی اور پولیس کے محکمہ میں تعینات ہوئے۔ فرض شناس ، دیانتدار اور بہادر سپاہی و آفیسر کی شہرت ان کی پہچان بن گئی۔ کوئٹہ میں تعیناتی تب ہوئی جب قاتلوں اور دہشتگردوں نے شہر میں خونی پنجے گاڑ ھ ر کھے تھے ۔ ان پرخطر شب و روز میں احمد مبین فرض منصبی کا حق برابر ادا کرتا رہا اور یہاں کے باسیوں کے تحفظ کی خاطر کبھی غفلت و تساہل کا مظاہرہ نہ کیا۔باوجود اس کے کہ وہ دہشتگردوں کے خاص ہدف پر بھی تھے۔ بعد میں لاہور تبادلہ ہوا ۔ لاہور ملک کا پرامن شہر تصور کیا جاتاہے۔اور احمد مبین ،پرامن شہر میں دہشتگردی کا نشانہ بن گئے اور شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا۔
کمانڈر عبدالرزاق شہر کوئٹہ کا محسن اور محافظ تھا۔ سینکڑوں بم ناکارہ بناکر ہزاروں معصوم شہریوں کی جان بچاچکے ہیں۔ اب سوچیے کہ یہ عظیم انسان اللہ کے ہاں کتنا عظیم اور عزت والا ہوگا۔ دین مبین ہی کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ عبدالرزاق اپنی مہارت، جفاکشی اور دلیری کی بنا پر محکمہ پولیس میں کمانڈر کے اعزازی نام سے پکارے جاتے تھے۔ ہماری پہلی ملاقات غالباً 2009ءمیں رات کے وقت ہزار گنجی میں ایک دھماکے کے بعد ہوئی یوں یہ ملاقات کمانڈر سے دوستی کا ذریعہ بن گئی ۔وہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایک ماہر اور بیدار مغز رکن تھے۔ صوبے بھر میں جہاں ضرورت پڑتی ، کمانڈر وہاں موجود پائے جاتے۔ جہاں ممکن نہ ہوتا تو فون پر لمحہ بہ لمحہ بم ناکارہ بنانے کی ہدایات دیتے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ شایددہشت گردوں نے کمانڈر عبدالرزاق کو ہی درمیان سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ سردست یہ اطلاع دی گئی ہے کہ سریاب پل پر نصب کیا گیا تقریباً آٹھ کلو گرام کا یہ بم بیک وقت ٹائم ڈیوائس اور ریموٹ کنٹرول تھا۔ گویا دہشتگردوں نے اس بہادر اور مشاق سپاہی کو الجھائے رکھا۔ اسطرح دھماکا کرکے ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا ،کیونکہ کمانڈر عبدالرزاق دہشتگردوں کی سینکڑوں وارداتیں اور منصوبہ بندیاں ناکام بناچکے تھے۔ گویا شہید کمانڈر ان کی انسانیت کش منصوبوں کے آگے مزاحم تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ کمانڈر کو ان کی خدمات کا صلہ حکومت بلوچستان اور پولیس کے محکمے نے بھی نہیں دیا۔ وہ کوئی گم نام سپاہی نہ تھے کہ کسی کا دھیان نہ گیا ہو ۔ وہ تو محکمہ پولیس کی ضرورت تھے ۔ مگر پھر بھی وہ محکمہ کی عنایات کا مستحق نہ ٹھہرے۔ 23سالہ عرصہ ملازمت میں شہید کو ایک ہی بار ترقی ملی۔ اسی طرح عبدالمجید کو تو زندگی بھر ترقی ہی نہ ملی جو کمانڈر کے ساتھ اس رات شہیدہوگئے تھے۔ سننے میں آیا ہے کہ کمانڈر کو ایک بار ہیڈ کانسٹیبل سے اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور پھر واپس بھی لے لی گئی۔ حالانکہ وہ اسپیشل برانچ میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں کو تربیت بھی دیتے تھے، بلکہ سیکیورٹی فورسز بھی ان کی خدمات لیتی ۔ گویا ایک استاد بھی تھے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک پر خطر پیشے سے وابستہ ہیں لیکن اس کے باوجود اس جوان کمانڈر نے اپنا پیشہ اور کام خوف وبوجھ نہ سمجھا۔ جب بھی پکار ہوتی تو فرض کی ادائیگی کیلیے لپک کر جاتے۔ دوست احباب عزیز و اقارب سے البتہ دعا کی التجا ضرور کرتے کہ یہی اہل ایمان کی نشانی ہوتی ہے ۔ 2007 میں پولیس کا اعلیٰ اعزاز پاکستان پولیس میڈل اور2010 میں قائداعظم پولیس میڈل سے نوازا گیا۔ اس مجاہد کی خدمات بہت بڑی ہیں ۔بلاشبہ ملک و قوم کے لیے گراں قدر خدمات انہیں پاکستان کے سب سے بڑے قومی اعزاز کا ہر لحاظ سے مستحق ٹھہراتاہے۔ قوم ان عظیم شہداءکو اپنی دعاﺅں میں فراموش نہ کرے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرے۔ دہشتگرد بظاہر اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوگئے ۔ مگر فی الحقیقت کمانڈر عبدالرزاق ،احمد مبین اور عبدالمجید،کامران سرخرو ہوچکے ہیں۔ دہشت گردوں اور ان شہدا ءمیں فرق محتاج ِبیان نہیں، دہشتگردکی تعریف خلق خدا کو قتل کرنے والوں کی ہے جبکہ احمد مبین ،کمانڈر عبدالرزاق اور عبدالمجید انسانیت کو بچانے والے تھے۔”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔(البقرہ 154)
٭٭