تحریک انصاف اور پورس کے ہاتھی
شیئر کریں
روئیداد خان نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک جملے میں احاطہ کرتے ہوئے لکھا تھا:زینے کے اوپر چڑھتے ہوئے بھاری بھرکم بوٹوں کی آوازاور زینے سے اترتے ہوئے نرم ونازک ریشمی جوتوں کی سرسراہٹ”۔ اب کچھ تبدیلی ہے، زینے پر چڑھتے بھاری بھرکم بوٹ اب نرم ونازک ریشمی جوتوں کی سی بھی سرسراہٹ پیدا نہیں کرتے۔حالیہ دنوں میں تبدیلی سرکار خود ”تبدیلی ” کی افواہوں سے دوچار ہے۔ تحریک انصاف کا ہانگا چھوٹ رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست آدرش سے موقع پرستی تک کے سفر کی کہانی سناتی ہے۔ عمران خان کے لاہور میں 2011 ء کے تاریخی جلسے سے عروج کا جو سفر شروع ہوا تھا، وہ اب ڈھلوانوں کی جانب گامزن ہے۔ عمران خان فراموش کرگئے تھے، سیاسی جماعت کرکٹ کی ٹیم نہیں ہوتی جس میں ہر کھلاڑی ”میچ” کھیلنے کے لیے ایک ہی ٹیم کے جبر میں مبتلا رہتا ہے۔ سیاست کے کھلاڑی ساری ٹیموں اور پچ کے دونوں طرف کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کی ہموار سیاست میں لوگوں کے رجحانات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ رہنما اپنے اُصولوں کی خاطر جماعت بدل لیتے ہیں تو کچھ اپنی جماعت کی خاطر اُصول تبدیل کردیتے ہیں۔ پاکستان میں جماعت اور اُصول میںسے کوئی چیز ترجیح نہیں رکھتی۔ یہاں ذاتی منفعت اور مفادات کی نگرانی میں سیاسی جماعتوں کا انتخاب اور اُصولوں کی عیاشی پالی جاتی ہے۔ 2011 ء کی کہانی بھی مختلف نہ تھی جب اچھل کود کی سیاسی ثقافت سے وابستہ رہنما تحریک انصاف میں خیمے گاڑنے لگے۔دراصل یہ ایک موقع تھا، جب سارے پرندے اڑان بھرتے ہوئے تحریک انصاف کی منڈیر پر جابیٹھے۔ اشارہ دینے والے اشارہ دے رہے تھے، اور دھکا دینے والے دھکا۔ عمران خان تب اقتدار کے لیے آدرش کو فراموش کرکے ”الیکٹ ایبل” کی سیاست میں پڑے۔ اب اُنہیں ”الیکٹ ایبل” کی سیاست کا بھگتان دینا ہے۔تحریک انصاف کے رہنما ان دنوں پورس کے ہاتھی بنے اپنی ہی صفوں کو روندنے میں لگے ہیں۔ مگر یہ خلاف توقع نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بِنا پائیدار نہیں۔ سیاست دانوں کی اُچھل کود کی ثقافت کے رنگ بہت گہرے ہوچکے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہم عیب کو اب عیب بھی نہیں سمجھتے۔ عادت کی عادت یہ ہے کہ وہ نیک وبد کا احساس چاٹ لیتی ہے۔
تحریک انصاف کے دو اہم رہنما اختلافات کے تاثر کے ساتھ منظر عام پر اُبھرے۔ پرویز خٹک نے براہِ راست عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف میں یہ جرأت کسی کو نہیں ہوئی۔ منی بجٹ کو منظور کرانے کی ”مجبوری” کا فائدہ حکومتوں کے اتحادیوں نے بھی خوب اُٹھایا۔ ایم کیوایم ، جی ڈی اے تو خیر کسی کھیت کی مولیاں ہیں، مگر اصحاب ق نے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی گھونٹ گھونٹ پیا ہے۔ پرویز مشرف کے عہد میں احتساب بیورو کی ”التجاؤں” اور جنرل احتشام ضمیر کی ”ترغیب” سے” ضمیر ”جگانے والوں نے اب تک سیاست کے اُس ”ضمیر” کو زندہ رکھا ہے جس میں دام کھرے اور سکے کھوٹے رکھے جاتے ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا پیدا نہیں ہونے دی جاتی۔ دونوں ہاتھ میں لڈو نہ ہوں تو حکومت سے ہاتھ کرنے کی ترکیب کی جاتی ہے۔ چنانچہ اصحاب ق نے منی بجٹ کی منظوری پر حکومت سے جو پانا تھا ، پایا۔ وزیراعظم مجبورِ محض ہو کر چودھری مونس الٰہی سے ملاقات پر مجبور ہوئے۔ اس سے قبل وہ اُنہیں کوئی وزارت دینے کو تیار نہ تھے۔ پھر عمران خان اپنی سیاسی کمزوریوں کو جوں جوں ظاہر کرتے گئے، لاچاری کے عالم میں اتحادیوں کے مطالبات بھی مانتے گئے۔چودھری مونس الہٰی نے 19 جولائی 2021ء کو وفاقی وزارت کا حلف اُٹھا کر آبی وسائل کا قلمدان سنبھالا، تب عمران خان کی حکومت کو ایک ماہ کم تین سال ہوچکے تھے۔ اس عرصے میں ق لیگ نے عمران خان کی حکومت کی تمام کمزوریوں اور مشکل دنوں میں اپنا وزن بڑھایااور اُنہیں مجبورِ محض بنادیا۔ پھر بھی کہاں! عمران خان کو کہاں یہ اب تک اندازا ہوسکا ہے کہ سیاست کے کھیل میں ٹیم کا انتخاب کپتان کی مکمل صوبداید پر نہیں ہوتا۔ خدارا عمران خان کے وہ دعوے یاد نہ کیجیے گا کہ وہ ٹیم کا انتخاب اپنی مرضی سے کریں گے۔ اور اُنہیں کوئی مجبور یا بلیک میل نہیںکرسکتا۔ البتہ محاوروں سے مناسبت رکھنے والے ذہن یاد رکھتے ہیں: اونچی دُکان پھیکا پکوان!!
کون نہیں جانتا کہ عمران خان کے ساتھ اُن کے اتحادی اُن کی کسی اہلیت یا بصیرت کے باعث نہیں، بلکہ ایک ایسے بندوبست کے سبب ہیں جس کی کاریگری یا بُنت میں اُن کا حصہ کبھی نہیں رہا۔عمران خان نے وزیراعظم بننے کے لیے مطلوبہ ہندسہ کسی سیاسی جتن سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے بطن سے حاصل کیا تھا۔ عمران خان کے اتحادی آج بھی اسی باعث برقرار ہیں۔ چنانچہ منی بجٹ یا اس طرح کے مشکل اوقات میں وہ حکومت کو آنکھیں دکھا کر اپنا وزن ضرور ظاہر کرتے ہیں ، مگر اپنے ذاتی اہداف پا کر دستورِ زباں بندی خود پر نافذ کر لیتے ہیں۔ اتحادی جماعتیں ، عمران خان کی تحریک انصاف کی چھتری تلے دراصل کسی سیاسی ایجنڈے پر نہیں بلکہ ایک” ہانکے” کی بنیاد پر اکٹھی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کتنی ہی نامقبول ہو، اتحادی جماعتیں کسی بھی فیصلے کے لیے ”ہانکا ہانکی” والی قوتوں کے اشارے کا انتظار کرینگیں۔ یہ منظر کسی حیرت میں مجسم نہیں ہوتا کہ گزشتہ تین برسوں میں عمران خان نے کسی اتحادی جماعت کو منہ نہیں لگایا۔ پارلیمنٹ میں ووٹ کے وقت اتحادی جماعتوں سے کیا معاملات ہوتے رہے، یہ پیشِ منظر میں دکھائی نہ دیتے تھے۔ عمران خان اور وفاقی وزراء کو اتحادیوں کو سمجھانے کا ”بوجھ” ڈی جی آئی ایس آئی کی نئی تقرری پر پیدا ہونے والی ناپسندیدہ مشق کے بعد سے اُٹھا نا پڑرہا ہے۔ چنانچہ منی بجٹ کی منظوری سے پہلے اتحادی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے سلسلے نے یہ بات تو واضح کردی کہ اب یہ بوجھ عمران خان کو خود اُٹھانا ہے۔ تاہم اتحادی عناصر حکومت کے شیرازے کو بکھیرنے کا عزم پھر بھی نہیں پال سکتے ، یہ عزم ، کسی اشارے یا اِذن کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
اتحادی جماعتوں کے برعکس تحریک انصاف کی اندرونی حالت عمران خان کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ پرویز خٹک اور نور عالم خان نے خطرے کی جو گھنٹی بجائی ہے، وہ پہلے ہی سے جماعت کے اندرونی حلقوں میں بج رہی تھی، بس سنائی نہیں دے رہی تھی۔تحریک انصاف کا رویہ نور عالم خان اور پرویز خٹک کے باب میں مختلف ہے۔ نور عالم خان نے براہِ راست عمران خان کو نشانا نہیں بنایا۔ اُن کی تنقید کا ہدف حکومتی نشستوں پر براجمان گلی صفوں کے لوگ تھے۔ مگر تحریک انصاف نے ”اظہاروجوہ” کی سوغات ہی نہیں بھیجی بلکہ اُنہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ دوسری طرف پرویز خٹک نے براہِ راست عمران خان کو نشانا بنایا۔ اُن کا انداز تحقیر آمیز تھا۔ یہاں تک کہ عمران خان کو پارلیمانی اجلاس میں یہ کہنا پڑا کہ مجھے کوئی بلیک میل نہیں کرسکتا، فیصلہ کر لیں ،میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب کسی اور کے حوالے کردیتا ہوں۔ کہنے والے اِسے بھی کسی اشارے پر محمول کررہے ہیں۔ افواہ تراشوں کے نزدیک ”سامری” کے بچھڑے میں جان یوں ہی نہیں پڑی، اس میں کسی ”جادو” کا دخل ہے۔ اس سے قطعِ نظر تحریک انصاف کا رویہ پرویز خٹک کے ساتھ انتہائی مودبانہ اور عاجزانہ ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان دو روز بعد ایک پروگرام میں خیبر پختونخوا تشریف لے گئے تو اُنہوں نے وہاں پرویز خٹک کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا رویہ نور عالم خان اور پرویز خٹک کے معاملات میں الگ الگ کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ پارٹی سیاست پر گرفت کا مسئلہ ہے۔ پرویز خٹک خیبر پختونخوا میں پارٹی سیاست پر اپنی گہری گرفت رکھتے ہیں، اور اُن کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ مہنگی پڑ سکتی ہے۔ عمران خان اپنی نامقبولیت کے ان بدترین ایام میں ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے جو تحریک انصاف کی اندرونی دراڑوں کو مزید گہرا کرے۔ چنانچہ پرویز خٹک کے ساتھ معاملات سنبھالنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی جبکہ نور عالم خان کو سبق سکھانے کے تیور اپنائے گئے۔ باقی جماعتوںکی طرح یہ مختلف رویے اب تحریک انصاف کی پہچان بن چکے۔ تحریک انصاف کی اضافی مشکل یہ ہے کہ اُس کے اندرونی اختلافات کا اثر صرف جماعت کے دائرے تک محدود نہیں رہا۔ یہ اختلافات بدلتے سیاسی حالات کی تشریح و تعبیر میں استعمال ہوررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے سیاسی پل صراط پر چلنے کا وقت ہو چلا ہے۔
مارچ میں ”کچھ ہونے” کے اندیشوں نے تحریک انصاف کے اندرایک کھلبلی پیدا کی ہے جو نور عالم خان سے لے کر پرویز خٹک تک کو بے چین کرگئی ہے۔ اطلاعات یہی ہے کہ یہ بے چینی تحریک انصاف کے اندر ہر ”الیکٹ ایبل” میں پائی جاتی ہے۔ گاہے بدلی رتوں میں پرندوں کی اڑانیں ”مستقر” بھلا دیتی ہے۔ تحریک انصاف کی منڈیر پر بیٹھے پرندے پہلے بھی کہاں کسی مستقر پر قیام کرتے رہے۔ کھیل اشاروں کا ہے۔ اس لیے زبانوں سے نہیں پھسلے گا۔ تحریک انصاف میں جو ”الیکٹ ایبل” اکٹھے ہوئے تھے، اب نئی سیاسی رُتوں کے تیور دیکھ رہے ہیں۔انتظار اُن ہی اشاروں کا ہے۔ جہاں تک جماعت یا اُصول کی بات ہے تو اس کی پروا یہاں کون کرتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔