میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شاہ صاحب باتوں کے بادشاہ

شاہ صاحب باتوں کے بادشاہ

ویب ڈیسک
پیر, ۲۱ جنوری ۲۰۱۹

شیئر کریں

قاسم علی شاہ سے ملنا اور سننا، انھیں اپنے سامنے دیکھنا، ان کی موجودگی کو محسوس کرنا ایک منفرد تجربہ ہے، شاہ صاحب باتوں کے بادشاہ ہیں، قصہ ، کہانیاں، تجربات،واقعات اور برجستگی ایسی کہ وہ کہا کرے اور ہم سنا کریں۔میں قاسم علی شاہ کا فین ہوں، میں نے انھیں ایک عام اسپیکر سے ایک سیلیبریٹی بنتے دیکھا ہے، اس میں ان کی محنت، جذبہ،مقصد کی لگن، شرافت، عاجزی،کثرت مطالعہ،اور لوگوں سے مسلسل رابطہ، ان کی تجربات میں شرکت سب کچھ شامل ہے، کراچی آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم ہاؤس فل تھا، قاسم علی شاہ کو سننے والے آدھے سے زائد وہ تھے، جو دو ہزار روپے کا ٹکٹ لے کر اس پروگرام میں آئے تھے۔ جس میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ تھے، اپنا وقت اور سرمایہ خرچ کرنے والے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے ٹکٹ کی رقم وصول بھی کرنا چاہتے ہیں، ایسے ہی ایک صاحب اس پر ناراض تھے کہ قاسم علی شاہ دیر سے کیوں آئے، حالانکہ وہ ایک مہمان تھے، میزبانوں نے جو وقت دیا تھا اس کے مطابق ہی پہنچے تھے۔ لیکن ان صاحب کے احتجاجی رویے پر قاسم علی شاہ مسکراتے رہے، اور اپنی طرف سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جس کو قبول کرتے ہوئے تمام حاضرین نے کھڑے ہوکر بھرپور تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔
قاسم علی شاہ نے ابتداء ہی میں ایک لطیفہ سنا کر اپنے معترضین کا پھلکا اڑا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ،،ایک صاحب کا آپریشن تھا۔ ان کے ایک عزیز کو اس مہنگے آپریشن کا قلق تھا، جو تھوڑی دیر میں مکمل ہوچکاتھا، تو اس عزیز نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ یہ اتنی جلدی آپریشن ہوگیا، یہ لمبا نہیں ہوسکتا تھا، ڈاکٹر نے کہا اس میں مریض لمبا بھی ہوسکتا ہے۔ ،، یہ سن کر پورا ہال زعفران زار بن گیا۔اس موقع پر ہمارے مشتاق احمد خان نے قاسم علی شاہ کو حوصلہ دیا کہ ان کو سننے والے ، انھیں اس وقت تک سنیں گے، جب تک وہ بات کریں، جس پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔قاسم علی شاہ کو نوجوانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہے،
نوجوان ان کی بات ہی نہیں سنتے بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں، تعلیم اور تدریس قاسم علی شاہ کا پیشہ بھی ہے اور شوق بھی، وہ اپنی تقریر میں اشفاق احمد، واصف علی واصف کا بہت زیادہ حوالہ دیتے ہیں، لیکن ان حوالوں میں جو وارفتگی، محبت، سلوک اور عقیدت شامل ہے، وہ موضوع کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔
وہ اسلامی تعلیمات کے حوالے کے ساتھ ساتھ حضوراکرم ﷺ کا ذکر بھی ایسے منفرد انداز میں کرتے ہیں کہ عشاق رسول ﷺ بھی عش عش کر اٹھتے ہیں، وہ لیڈر شپ کے لیے سب سے اعلیٰ ذات گرامی حضور پاک ہی کی زندگی اور سیرت کو پیش کرتے ہیں۔ قاسم علی شاہ کو وطن کی دھرتی اور اس کی روایتیں بھی عزیز ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کی ترقی اردو سے ہوسکتی ہے، ہمیں اپنے پینڈو پن پر شرمانا نہیں چاہیئے بلکہ اس پر فخر کرنا چاہیئے،اساتذہ کے لیے ان کا مشورہ تھا کہ وہ تعلیم سے زیادہ تربیت پر توجہ دیں، بچوں کی تربیت ہی اصل کام ہے، اور بدقسمتی سے ہم اس سے دور ہوتے جارہے ہیں، اگر تعلیمی اداروں سے پڑھ کو نکلنے والے بچوں میں کردار نہیں پیدا ہوا، اور آپ نے ان کے کردار پر توجہ نہ دی تو پھریہ تعلیم تعلیم نہیں ہے۔
قاسم علی شاہ کی تقریر کی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی تقریر میں واقعات اور تجربات پیاز کے چھلکوں کے طرح ایک کے بعد ایک اس تسلسل سے آتے ہیں کہ گھنٹے پھر کی اس تقریر میں مجال ہے کہ آپ بور ہوں، اس کا دوسرا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے موضوع پر بہت گرفت رکھتے ہیں، اور ہر تھوڑی دیر پر اپنے ٹریک یعنی موضوع پر آجاتے ہیں، یقیناًوہ ایک تقریر کے لیے بہت تیاری کرتے ہیں۔ان کی تقریر میں پنجابی کا تڑکا بھی لگا رہتا ہے، اور سادہ سادہ جملوں میں وہ بہت کام کی بات لوگوں کے دل اور ذہن میں اتار دیتے ہیں۔ اچھی بات اور خوشخبری یہ ہے کہ قاسم علی شاہ نے اس تقریب میں قاسم علی شاہ فاونڈیشن کے کراچی چیپٹر کے قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے، اور اب کراچی والے گاہے بگاہے قاسم علی شاہ کو سنتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں